کمر درد سے متعلق پائی جانے والی عام غلط فہمیاں
کمر درد دنیا بھر میں عام ہوتا جارہا ہے، تحقیقی رپورٹس کے مطابق ہر 5 میں سے 4 افراد کو زندگی میں کسی وقت اس کا سامنا ہوتا ہے۔
چونکہ یہ درد دنیا بھر میں عام ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ اس بیماری سے متعلق کئی لوگوں میں وہم بھی پایا جاتا ہے۔
یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ غلط فہمیاں کیوں پیدا ہوتی ہیں، تاہم کسی شواہد کے بغیر کسی بھی معلومات پر یقین کرلینا بالخصوص اگر وہ صحت سے متعلق ہو تو پہلے اپنی معالج یا ڈاکٹر سے رابطہ کرلیں۔
انہی غلط فہمیوں کی وجہ سے کمر درد میں مبتلا لوگوں میں خوف پیدا ہوجاتا ہے۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ کمر درد کا ابتدائی علاج جسم میں حرکت پیدا کرنا ہے لیکن اگر سنی سنائی باتوں پر یقین کرکے ذہن میں یہ خوف پیدا ہوجائے کہ حرکت کرنے سے کمر کے درد میں اضافہ ہوسکتا ہے تو آپ ایک بڑی غلطی کررہے ہیں۔
انہی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے یہ مضمون لکھا گیا ہے، برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ میں اسی حوالے سے رپورٹ مرتب کی گئی جس میں لوگوں کو کمر درد سے متعلق پیدا ہونے خوف سے معتلق آگاہ کیا گیا۔
وہم نمبر 1: ’ورزش کرنے اور وزن اٹھانے سے کمر درد میں اضافہ ہوگا‘
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ورزش کرنے سے کمر درد میں اضافہ ہوتا ہے، تاہم یہ تاثر غلط ہے۔
ورزش کرنے سے کمر درد میں کمی آتی ہے، جسمانی نشونما میں بھی بہتری اور جسمانی بیماریاں اور خرابیاں دور ہوتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق کمر درد کے علاج کے لیے ورزش کو اب بہترین علاج مانا جاتا ہے، تاہم ورزش کرنے کے دوران مخصوص وزن اٹھانے کا تعلق کمر درد سے نہیں ہے
وہم نمبر 2: ’چلنے سے کمر درد میں اضافہ ہوگا‘
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مکمل صحت یاب ہونے کے لیے بستر پر آرام کرنا لازمی ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ رائے کسی حد تک ٹھیک ہے لیکن طویل گھنٹے تک بستر پر آرام کرنا بہتر نہیں۔
وقتاً فوقتاً چلتے رہنا، جسم میں حرکت پیدا کرتے رہنا، اور ہلکی پھلکی ورزش کرنا ضروری ہے۔
وہم نمبر 3: ’کمر درد کا کوئی علاج نہیں ہے‘
کمر درد کا علاج اگر صحیح وقت پر کرلیا جائے تو اس بیماری سے جلد چھٹکارا پانا ممکن ہے۔
بہتر غذا کا استعمال، روزانہ ورزش کرنا، ڈاکٹر سے رجوع کرنا، جسم میں پروٹین اور وٹامن ڈی کی صحیح مقدار اور پانی کا زیادہ استعمال کرنے سے کمر درد سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔