پاکستان

جلاؤ گھیراؤ کی بنیاد پر کئی تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا، مولانا فضل الرحمٰن

ایسی جماعت کو پاکستان میں بطور ناسور تصور کیا جائے، ایسے عناصر کا خاتمہ ہونا چاہیے، پی ڈی ایم سربراہ

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) صدر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ جلاؤ گھیراؤ کی بنیادی پر کئی تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا تو کیا اس کردار پر تحریک انصاف کو عزت دی جائے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ دن بدن شرپسند عناصر کے بارے میں ہماری رائے کی تصدیق ہو رہی ہے، پی ٹی آئی کارکنان کی طرف سے جلاؤ گھیراؤ عوام نے دیکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کو ان کے حوالے کیا گیا اور یہ خود کہتے ہیں کہ ہمیں فلاں فلاں نے حکومت دی۔

پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ جلاؤ گھیراؤ کی بنیادی پر بہت تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا تو کیا اس کردار پر تحریک انصاف کو عزت دی جائے، ایسی جماعت کو پاکستان میں بطور ناسور تصور کیا جائے، ایسے عناصر کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اگر کوئی ادارہ ان کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لیے کوشش کرتا ہے تو وہ بھی اتنا ہی مجرم ہوگا جتنی یہ جماعت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میرا اول دن سے مؤقف ہے کہ عمران خان پاکستانی سیاست کا غیر ضروری عنصر ہے جس کو بیرونی قوتیں لائی ہیں اس کو نکالنا ہے۔

’نیشنل ایکشن پلان کے بجائے نیشنل ایکنامک پلان پر کام کیا جائے‘

قبل ازیں قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے پی ڈی ایم صدر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان میں ہم نے اداروں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے جن میں عدلیہ، انتظامیہ اور مکننہ شامل ہیں اور ہر ایک کا اپنا دائرہ اختیار ہے۔

پی ڈی ایم صدر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پارلیمان قانون بناتا ہے، آئین و قانون میں ترمیم کرتا ہے اور جو ادارہ آئین و قانون بناتا ہے تو ظاہر سی بات ہے وہ سب سے طاقتور ادارہ ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہمارے یہاں اختیارات کے معاملے میں بگاڑ پیدا ہوا ہے، ہماراے ادارے اپنے دائرہ اختیار سے باہر دوسروں کے دائرہ اختیار میں مداخلت کرتے ہیں اور یہاں تک کہ پارلیمان کے اختیارات میں مداخلت کی جاتی ہے۔

پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ ملک میں آج جو مشکلات اور عدم استحکام کی صورتحال درپیش ہے تو اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے آئین کے بنیادی اصول کا احترام نہیں کیا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اگر آئین کا کوئی آرٹیکل، کوئی قانون یا قانون کی کوئی شق مبہم ہے تو ایسی صورتحال میں ہم ضرور عدلیہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور عدلیہ اس کی تشریح کرتی ہے لیکن جب ہم اپنے ماضی پر سرسری نظر ڈالتے ہیں تو قانون اور آئین کے مبہم حصوں کی تشریح کم نظر آتی ہے اور عدلیہ جو چاہے ان کی تشریح کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ایک بھی مبہم شق عدالت میں جائے گی تو یہ عدالت کا کام نہیں کہ وہ قانون جاری کرے بلکہ اگر مبہم ہے تو اس کی نشاندہی کرکے پارلیمان کے پاس بھیجے کہ ان مبہم حصوں کو قانون سازی کے ذریعے واضح کردیں۔

پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ پاکستان کے شہری کا عزم آئین کی وسعت سے ہے، اگر آئین بیچ میں نہیں رہا تو کوئی شخص کسی کا پابند نہیں ہے اس لیے ضروری ہے کہ آئین کا تحفظ کیا جائے اور آئین کے ساتھ کھلواڑ بند کیا جائے.

انہوں نے کہا کہ 1973 کے آئین میں صوبوں کو کچھ اختیارات دیے گئے تھے جس کو مکمل کرنے کے لیے محدود وقت مقرر کردیا گیا تھا لیکن محدود وقت میں وہ اختیارات نہ مل سکے اور بالآخر 18ویں ترمیم کے ذریعے وہ اختیارات دیے گئے، تاہم کچھ کام ابھی باقی ہے۔

پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ اگر صوبوں کو حقوق نہیں دیے گئے تو یہ آئین کی نفی کی گئی تھی جس کی وجہ سے چھوٹے صوبے محکومیت اور محرومیت کے نعرے لگانے لگے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں داخلی امن حاصل کرنا ہے تو داخلی امن کا تعلق بھی معاشی خوشحالی سے ہے اس لیے ہم نے تجویز کیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر کام کرنے کے بجائے نیشنل ایکنامک پلان پر کام کیا جائے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی طرف سے عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل پر بات کرتے ہوئے پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ جو واقعات کل سے رونما ہو رہے ہیں ہم ان کا مشاہدہ کر رہے ہیں اسی لیے ہی ہم نے کہا تھا کہ ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔