پاکستان

عافیہ صدیقی سے ملاقات کیلئے ان کی بہن فوزیہ صدیقی کو امریکی ویزا مل گیا

تمام اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ فوزیہ صدیقی کی امریکا میں سیکیورٹی اور حفاظت یقینی ہو، اسلام آباد ہائی کورٹ کی حکام کو ہدایت
|

امریکا میں قید پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی کو ان سے ملاقات کے لیے امریکا کا ویزا مل گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکی قید سے رہائی اور پاکستان منتقلی کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت میں درخواست گزار ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اپنے وکیل عمران شفیق کے ہمراہ پیش ہوئیں، ان کے ساتھ امریکا میں عافیہ صدیقی کے وکیل کلائیو اسمتھ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

دورانِ سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ امریکا میں عافیہ صدیقی سے ملاقات کے لیے فوزیہ صدیقی کو 5 سال کا امریکی ویزا مل گیا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل عمران شفیق نے ملاقات سے متعلق عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ امریکی جیل میں عافیہ صدیقی سے 29 سے 31 مئی کے درمیان 3 روز تک ملاقات طے پا گئی ہے، فوزیہ صدیقی اور وکیل کلائیو اسمتھ عافیہ صدیقی سے ملاقات کریں گے۔

وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے نفسیاتی چیک اَپ کے لیے آزاد ڈاکٹر ہونا چاہیے جس پر عدالت نے ہدایت کی کہ وزارت خارجہ، عافیہ صدیقی کے نفسیاتی چیک اَپ کے لیے آزاد ڈاکٹر فراہمی میں مدد کرے۔

عدالت نے فوزیہ صدیقی کو ہدایت کی کہ جب کبھی کوئی مسئلہ ہو درخواست دیں اگلے دن عدالت سن لے گی۔

عدالت نے حکومت کو حکم دیا کہ عافیہ صدیقی سے متعلق دستاویزات اور معلومات کو امریکی وکیل کے ساتھ شیئر کیا جائے۔

عدالت نے ہدایت کی کہ امریکی وکیل کلائیو اسمتھ یقین دہانی کرائیں گے کہ معلومات عافیہ صدیقی کیس کے علاوہ کہیں اور استعمال نہیں ہوں گی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ امریکی وکیل کے ساتھ معلومات شیئر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ کیس تیار کر سکیں، امریکی وکیل کلائیو اسمتھ کی شیئر کردہ دستاویز خفیہ رہے گی۔

وزارت خارجہ کے حکام نے بتایا کہ حساس معلومات کی وجہ سے مجاز اتھارٹی کی منظوری ضروری ہو گی۔

عدالت نے ہدایت کی کہ جس حد تک ممکن ہو سکا عافیہ صدیقی کے وکیل سے مکمل تعاون کریں گے۔

عدالت نے حکام کو ہدایت کی کہ تمام اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ فوزیہ صدیقی کی امریکا میں سیکیورٹی اور حفاظت یقینی ہو۔

وکیل کلائیو اسمتھ نے عافیہ صدیقی کیس سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا، عدالت نے ڈاکومنٹ صرف وزارت خارجہ کے ساتھ شیئر کرنے کی ہدایت کردی۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 30 جون تک ملتوی کردی۔

عافیہ صدیقی کے خلاف کیس

عافیہ صدیقی کو 2010 میں ایک امریکی وفاقی عدالت نے 86 سال قید کی سزا سنائی تھی جب وہ افغانستان میں امریکی حراست میں تھیں، اس وقت فوجیوں پر فائرنگ کرنے کے علاوہ 6 دیگر الزامات کے تحت انہیں مجرم قرار دیا گیا تھا۔

ان کے وکلا نے 12 سال کی سزا کی درخواست کی تھی جب کہ استغاثہ نے عمر قید کی سزا کے لیے دلائل دیے تھے۔

2009 میں ایک جیوری نے انہیں 7 الزامات پر مجرم قرار دیا تھا جن میں قتل کی کوشش کے 2 الزامات بھی شامل تھے، جیوری نے قرار دیا تھا کہ قتل کی کوشش کے الزامات میں کوئی پیشگی ارادہ نہیں تھا۔

استغاثہ نے الزام لگایا تھا کہ عافیہ صدیقی نے امریکی فوجی کی رائفل سے فوجیوں پر فائرنگ کی تھی۔

مقدمے کی سماعت کے دوران عافیہ صدیقی نے بیان دیا تھا کہ وہ صرف کمرے سے فرار ہونے کی کوشش کر رہی تھیں، اس وقت وہ کسی خفیہ جیل میں منتقل کیے جانے کے خوف میں مبتلا تھیں۔

عافیہ صدیقی کے اہل خانہ اور حامیوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں پاکستان میں گرفتار کیا گیا تھا اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حوالے کیا گیا تھا جنہوں نے انہیں امریکی تحویل میں منتقل کر دیا تھا، تاہم امریکی اور پاکستانی حکام دونوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں افغانستان میں گرفتار کیا گیا تھا۔

عافیہ صدیقی نے میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور برینڈیز یونیورسٹی سے حیاتیات اور نیورو سائنس میں ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں جب کہ وہ 1991 اور جون 2002 کے درمیان امریکا میں مقیم رہیں، انہوں نے خود پر عائد الزامات کی تردید کرتے ہوئے ہتھیار پکڑنے یا اسلحے کے استعمال سے واقفیت رکھنے سے انکار کیا تھا۔

افغانستان میں دریافت ہونے سے قبل وہ مبینہ طور پر 5 سال تک لاپتا رہی تھیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی گرفتاری قانون کے مطابق قرار دے دی

توہین پارلیمنٹ بل متعارف، 6 ماہ قید اور ایک کروڑ روپے جرمانے کی سزا تجویز

کراچی کا اگلا میئر ہمارے ووٹوں سے منتخب ہوگا، پی ٹی آئی