پاکستان

پاکستانی سفارتخانے کی عمارت کے باہر ’خستہ حال املاک‘ کے نوٹس کا معمہ حل نہ ہو سکا

عمارت کے خستہ حال ہونے کے حوالے سے نوٹس مرکزی دروازے پر چسپاں کیے جانے کے چند دن بعد غائب ہو گیا۔

امریکی دارالحکومت میں پاکستانی سفارت خانے کی عمارت کا معمہ اتوار کو اس وقت مزید پیچیدہ شکل اختیار کر گیا جب اس کے خستہ حال ہونے کے حوالے سے نوٹس مرکزی دروازے پر چسپاں کیے جانے کے چند دن بعد غائب ہو گیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق چونکہ واشنگٹن میں مقامی حکومت کے دفاتر اتوار کو بند رہتے ہیں، اس لیے کوئی بھی یہ واضح کرنے کے لیے دستیاب نہ تھا کہ انہوں نے نوٹس کب چسپاں کیا اور اسے کیوں ہٹایا۔

جب ڈان نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کے حکام سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ چونکہ ہم نے نوٹس کبھی نہیں دیکھا، اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اسے کب اور کیوں ہٹایا گیا۔

جمعہ کو لی گئی ’خستہ حال پراپرٹی‘ نوٹس کی ایک تصویر میں کہا گیا ہے کہ ڈپارٹمنٹ آف بلڈنگز، واشنگٹن کے بلڈنگ انفورسمنٹ یونٹ نے ’آپ کی جائیداد کا معائنہ کیا ہے اور اسے خستہ حال قرار دیا ہے‘۔

یونٹ نے املاک کے مالکان، پاکستانی سفارتخانے سے کہا ہے کہ 30 دن کے اندر عمارت کے حوالے سے جوابی فارم مکمل کریں اور جمع کرائیں یا آپ کی پراپرٹی کو خستہ حال نامزد کر دیا جائے گا اور اسی کے مطابق دوبارہ درجہ بندی کی جائے گی، نوٹس میں خبردار کیا گیا کہ اس ریڈ نوٹس کو ’غیر مجاز طور پر ہٹانے‘ پر 500 ڈالر کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔

اس ہفتے کے اوائل میں شائع ہونے والی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ واشنگٹن ڈی سی حکومت نے شہر کی تاریخی آر اسٹریٹ این ڈبلیو پر واقع سفارتخانے کے زیر ملکیت عمارت کی جائیداد کی درجہ بندی کو کم کر دیا ہے۔

یہ عمارت پچھلے کچھ مہینوں سے فروخت کے لیے تیار ہے اور اس محلے میں عمارتوں کی مروجہ قیمتوں کے مقابلے اس عمارت کے لیے بہت کم پیشکشیں موصول ہوئی ہیں۔

رپورٹس میں خبردار کیا گیا ہے کہ مذکورہ درجہ بندی سے عمارت کی مارکیٹ ویلیو میں مزید کمی آئے گی جبکہ اس کی تشخیص شدہ قیمت پر ٹیکس میں اضافہ ہوگا۔

ماضی میں سفارتخانے کے طور پر استعمال ہونے والی یہ عمارت گزشتہ سال کے آخر میں نیلامی کے لیے پیش کی گئی تھی، بولی کے عمل کو بعد میں پاکستانی حکام نے پاکستانی امریکی کمیونٹی کے دباؤ پر منسوخ کر دیا تھا۔

کمیونٹی کے کئی اراکین نے دعویٰ کیا کہ وہ شہر کے قلب میں واقع پراپرٹی کے لیے 68 لاکھ ڈالر کی بلند ترین بولی سے کہیں زیادہ پیشکش کرنے کو تیار ہیں، تاہم ابتدائی میڈیا رپورٹس میں عمارت کی ’جہاں ہے جیسا ہے‘ کی بنیاد پر نیلامی کے لیے 45 لاکھ ڈالر کی ابتدائی قیمت مقرر کی گئی ہے، یہ عمارت ایک دہائی سے زائد عرصے سے خالی پڑی ہے، عمارت کی سفارتی حیثیت بھی 2018 میں منسوخ کر دی گئی تھی جس کے بعد یہ مقامی حکومت کو ٹیکس ادا کرنے کی ذمہ دار تھی۔

2008 میں واشنگٹن میں تباہ شدہ جائیدادوں کے بارے میں واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ میں متحدہ عرب امارات کی زیر ملکیت عمارت کا رنگ پپڑی بن کر اترنے اور کھڑکیوں پر تختے لگے ہونے کی نشاندہی کی گئی تھی، جبکہ حکومت پاکستان کے زیر ملکیت عمارت کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ اس کے مرکزی دروازے کا تالا غائب ہے اور اونچی گھاس اگی ہوئی ہے۔

دسمبر 2017 میں امریکی محکمہ خارجہ نے ایک مقامی حکومتی اہلکار ایلینور ہومز نورٹن کی جانب سے کارروائی کی درخواست کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ملک کے دارالحکومت میں خستہ حالت میں موجود غیر ملکی عمارتوں کے حوالے سے ان کی حکومتوں سے بات چیت کے لیے تیار ہے۔

مقامی حکومت کے نام ایک اور خط میں محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ پاکستان اور ارجنٹائن سمیت کئی ممالک کی ملکیتی عمارتیں سفارتی تشخص کھو چکی ہیں، واشنگٹن میگزین میں 2018 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایک وقت میں پاکستان کے سفارتخانے کی عمارت تصور کی جانے والی 1906 کی بیوکس آرٹس بیوٹی تقریباً ایک دہائی سے خالی پڑی ہے۔

اس حوالے سے کہا گیا تھا کہ انہدام کا نوٹس مرکزی دروازے کے بائیں جانب لٹکا ہوا ہے، کچھ کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے ہیں، جب کہ دیگر جالوں سے مزین ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے اپنا سفارت خانہ وان نیس میٹرو کے قریب مہنگے علاقے میں منتقل کر دیا ہے۔

’چاچو‘ کہنا کوئی بُری بات نہیں، میں اس کو انجوائے کرتا ہوں، افتخار احمد

کراچی ضمنی بلدیاتی انتخابات: 11 یو سیز میں سے 7 پر پیپلز پارٹی، 4 پر جماعت اسلامی کامیاب

کراچی اور کوئٹہ میں کانگو وائرس کا شکار دو افراد ہلاک