کیا پاکستان کی پہلی پوزیشن کے بعد پاک-بھارت کرکٹ میچ ممکن ہوگا؟
پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں 5 مئی کا دن یادگار رہے گا جب پاکستان ٹیم نے ایک روزہ کرکٹ کی آئی سی سی رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے تاریخ میں اپنا نام رقم کیا۔ پاکستان اس سے قبل ٹی20 اور ٹیسٹ کرکٹ میں تو پہلی پوزیش حاصل کرچکا ہے لیکن ایک روزہ کرکٹ میں ایسا نہیں ہوا تھا۔
آئی سی سی کی موجودہ رینکنگ میں اگرچہ آسٹریلیا، بھارت اور پاکستان کے پوائنٹس برابر ہیں لیکن کم میچ کھیلنے کے باعث پاکستان ٹیم کو سبقت حاصل ہے اور یہ پہلی پوزیشن پر براجمان ہوگئی ہے۔ آئی سی سی رینکنگ کا تعین ٹیم کو ملنے والے پوائنٹس کو کھیلے گئے میچوں کی تعداد سے تقسیم کرکے کیا جاتا ہے۔
ان پوائنٹس کو کثیر الجہتی بنیاد پر تفویض کیا جاتا ہے جن میں میچ میں رنز کی تعداد، جیت کا تناسب وکٹوں کی تعداد وغیرہ شامل ہے۔ یعنی اگر ایک میچ بڑے فرق سے جیتا جائے تو پوائنٹس کی تعداد بڑھ جاتی ہے جبکہ قریبی فرق سے پوائنٹس کم ہوجاتے ہیں اس کے ساتھ یہ بھی مدنظر رکھا جاتا ہے کہ میچ اپنے ہی ملک میں ہے یا ملک سے باہر ہے۔ ایک حسابی فارمولے کے ذریعے پوائنٹس کی تقسیم رینکنگ کو ترقی یا تنزلی دیتی ہے۔
آئی سی سی کی موجودہ رینکنگ کی ابتدا 2005ء میں شروع ہوئی تھی اور شروع دن سے اس سسٹم پر آسٹریلیا کی حکمرانی رہی ہے تاہم بھارت، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ بھی وقت کے ساتھ سر فہرست آتے رہے ہیں۔ پاکستان ٹیم نے پہلی بار یہ پوزیشن حاصل کی ہے۔ اس سے قبل 1991ء میں بھی پاکستان میچوں میں فتح کے تناسب سے پہلی پوزیشن پر تھا لیکن اس وقت سادہ طریقے سے رینکنگ کا تعین کیا جاتا تھا۔
پاکستان نے گزشتہ 4 سال کے عرصے میں 29 میچ کھیلے اور 3 ہزار 291 پوائنٹس حاصل کیے جبکہ آسٹریلیا نے 35 اور انڈیا نے 147 میچ کھیل کر پوائنٹس تو زیادہ حاصل کیے لیکن رینکنگ میں پیچھے رہ گئے۔
اوّل پوزیشن کے معمار
اگر پہلی پوزیشن کے معمار کا جائزہ لیا جائے تو کپتان بابر اعظم سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے ان 29 میں سے 25 میچوں میں کپتانی کی ہے اور اس دوران انہوں نے 7 سنچریاں اور کُل ایک ہزار 729 رنز بنائے۔ انہوں نے صرف چار میچ سرفراز احمد کی کپتانی میں کھیلے لیکن اس کے بعد وہ مسلسل کپتان رہے ہیں۔ ان کے ساتھ فخر زمان بھی نمایاں رہے جنہوں نے اس دوران 6 سنچریاں بنائی ہیں۔ فخر زمان پاکستان کے واحد کھلاڑی ہیں جنہوں نے ایک روزہ میچ میں ڈبل سنچری بنائی ہے وہ اس عرصہ میں بھی کئی بار ڈبل سنچری کے قریب پہنچے۔
امام الحق جنہیں ہوم پچز کا بریڈمین کہا جاتا ہے وہ بھی پیچھے نہیں رہے انہوں نے 3 سنچریاں بناکر ٹیم کو اچھا آغاز دیا۔ باؤلنگ میں شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف اور شاداب خان نمایاں رہے جن کی باؤلنگ کی بدولت مخالف ٹیم مقابلہ نہیں کرسکی۔
ٹیم اور بابر اعظم پر تنقید
قومی ٹیم اگرچہ آئی سی سی رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر پہنچ گئی ہے لیکن ماہرین اور سابق ٹیسٹ کرکٹرز کی اکثریت اسے نمبر ون ٹیم ماننے پر راضی نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان کے 29 میں سے 22 میچ کمزور اور کم معیار کی ٹیموں کے خلاف تھے۔
پاکستان نے صرف انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کی مکمل ٹیموں کے خلاف 6 میچ کھیلے جن میں سے 5 میں شکست ہوئی اگرچہ ان میچوں میں بابر اعظم کی 2 سنچریاں بھی بنی لیکن پاکستانی ٹیم برمنگھم میں اپنے 348 رنز کا بھی دفاع نہیں کرپائی دوسری طرف نیوزی لینڈ کی ٹیم نے پاکستان کو پاکستان میں شکست دے کر ٹیم کی طاقت کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔
پاکستان نے جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے خلاف جو سیریز کھیلی ان میں دونوں کے اہم کھلاڑی غیر حاضر رہے اسی طرح حالیہ نیوزی لینڈ کی ٹیم بھی اپنے 9 بہترین کھلاڑیوں کے بغیر کھیل رہی ہے۔ پاکستان نے اپنا ریکارڈ نیدرلینڈز زمبابوے ویسٹ انڈیز اور سری لنکا جیسی کمزور ٹیموں کے خلاف بہتر بنایا۔ ان ٹیموں کے خلاف بڑے فرق سے جیت نے مجموعی پوائنٹس کی تعداد زیادہ کردی جو رینکنگ میں فائدہ مند ثابت ہوئی۔
پاکستان کو یہ رینکنگ مستحکم رکھنے کے لیے نیوزی لینڈ کے خلاف آخری میچ میں بھی فتح حاصل کرنی ضروری تھی کیونکہ بھارت اور آسٹریلیا اگلی کسی بھی سیریز میں اوپر جاسکتے ہیں۔ آسٹریلیا کو اگلے چند ماہ میں انگلینڈ سے سیریز کھیلنی ہے۔
کپتان بابر اعظم پر بھی یہی تنقید کی جاتی ہے کہ ان کو اپنی ذاتی کارکردگی اور اعدادوشمار سے دلچسپی ہے اس لیے وہ کمزور ٹیموں کے خلاف بھی کھیلنے کا موقع ضائع نہیں کرتے ہیں جبکہ کئی بار ایسا ہوا کہ ان کی توجہ ٹیم کے اسکور کو تیز کرنے کے بجائے اپنی سنچری پر مرکوز رہی جس سے سنچری تو بنی لیکن جیت نہ مل سکی۔
پاکستانی ٹیم کی نیوزی لینڈ کے ساتھ حالیہ سیریز میں پاکستان نے یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ کیویز کی بی گریڈ ٹیم ہے اپنے نئے اور نوجوان کھلاڑیوں کو آزمانے سے گریز کیا۔ پاکستان چاہتا تو بابر اعظم سمیت 5 کھلاڑیوں کو آرام دے سکتا تھا لیکن ایسا نہ ہوا جبکہ نیوزی لینڈ نے اس سیریز کے ذریعے کئی عمدہ کھلاڑی دریافت کرلیے۔ حالانکہ افغانستان کے خلاف پاکستان نے اہم کھلاڑیوں کو آرام دیا تھا لیکن نئے کھلاڑیوں کی ناکامی نے پاکستان کو بیک فٹ پر جانے پر مجبور کردیا۔
کیا پاکستان کی رینکنگ دنیا کو متاثر کرے گی؟
اس رینکنگ کے بعد جو ملین ڈالر سوال کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا اس رینکنگ کے بعد دنیائے کرکٹ متاثر ہوسکے گی اور کرکٹ کے اسپانسرز پاکستان کو اہم ٹیم گردانیں گے؟ کرکٹ کے بڑے اسپانسرز کا تعلق بھارت سے ہے اور وہ جس بڑی تعداد میں سرمایہ کاری کررہے ہیں اس نے ہر کرکٹ کھیلنے والے ملک کی توجہ بھارت کی جانب مرکوز کردی ہے۔ بھارتی ٹیم گزشتہ 10 سال سے کسی بھی باہمی سیریز کھیلنے سے انکاری ہے اور آئی سی سی ایونٹس میں بھی اکثر یہ بحث رہی ہے کہ کیا بھارت کو پاکستان کے ساتھ کھیلنا چاہیے؟
پاکستان ہمیشہ سے بھارت کا مضبوط حریف رہا ہے اور جب بھی دونوں ٹیموں کے درمیان میچ ہوتا ہے تو دنیا بھر کی نظریں اس پر لگی ہوتی ہیں۔ گزشتہ ٹی20 ورلڈکپ کے دوران میلبرن میں ایک لاکھ شائقین نے پاک بھارت میچ دیکھا تھا اور آئی سی سی کو ریکارڈ آمدنی ہوئی تھی۔ بھارتی براڈکاسٹرز بھی ہمیشہ پاک بھارت میچ کے خواہش مند رہتے ہیں کیونکہ ان میچوں سے وہ ریکارڈ آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں ان کا چرچا ہوتا ہے اور ان میچوں کے ٹکٹ ایک سال قبل ہی فروخت ہوجاتے ہیں۔ پاکستان نے آئی سی سی ایونٹ میں اب تک صرف 2 دفعہ انڈیا کو شکست دی ہے لیکن ہر میچ سے پہلے دونوں ممالک میں عید کا سماں ہوتا ہے اور ہر ایک کو اس میچ کا بے چینی سے انتظار ہوتا ہے۔
ان تمام حقائق کے باوجود بھارت پاکستان کے ساتھ کھیلنے پر راضی نہیں ہے۔ ایشیا کپ جس کا انعقاد پاکستان میں ہونا ہے اب تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ کیونکہ ایشیئن کرکٹ کونسل کے صدر جے شاہ اپنے اثر رسوخ سے اس کو پاکستان سے باہر کروانا چاہتے ہیں اور کسی بھی صورت میں بھارتی ٹیم کو پاکستان بھیجنے پر راضی نہیں ہیں۔
پاکستان کی پہلی پوزیشن پر بھارتی میڈیا نے مکمل بے نیازی کا اظہار کیا ہے۔ کسی بھی ٹی وی چینل نے اس پر کوئی خبر نہیں دی حتیٰ کہ بھارت سے آپریٹ ہونے والی سب سے بڑی کرکٹ ویب سائٹ کرک انفو نے بھی کوئی خاص خبر نہیں دی ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان ٹیم کے اس تاریخی کارنامے کو دنیا تسلیم نہیں کررہی ہے؟ کیا اس کے پیچھے پاکستان کو دیوار سے لگانے کی سازش کارفرما ہے یا پھر پاکستان کے اس سنگ میل تک پہنچنے میں جو میچ ہوئے ان کے مستند ہونے میں کوئی قباحت ہے۔
پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر سکندر بخت ان فتوحات کو اعلٰی ترین کرکٹ سے دور سمجھتے ہیں، ان کے خیالمیں مسابقتی کرکٹ کے بغیر آپ کچھ بھی حاصل کرلیں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی اور دنیا اس کو تسلیم نہیں کرے گی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کسی بھی ملک کی دوسرے درجہ کی ٹیم میچ کھیلنے آرہی ہے تو اس میں پاکستان کی کیا غلطی ہے؟ پاکستانی ٹیم تو مسابقتی کرکٹ کے لیے تیار ہے اور آئی سی سی ایونٹس میں فائنلز تک پہنچتی رہی ہے۔
شاید اس کا جواب صرف آئی سی سی ہی دے سکتی ہے جس نے فرنچائز لیگ کرکٹ کو کنٹرول کرنے میں کمزوری دکھائی ہے۔ پیسے کا بے دریغ استعمال اور لیگ کی چکا چوند نے ہر ملک کے مایہ نازکھلاڑی کو قومی ٹیم کے بجائے فرنچائز لیگ کو ترجیح دینے پر مجبور کردیا ہے جس سے ہر ملک کی ٹیم تماشہ بنتی جارہی ہے۔
کرکٹ کے معاملات کو دیکھنے والی آئی سی سی اگر باہمی سیریز اور قومی ٹیموں کو بچانا چاہتی ہے تو اسے ان فرنچائز لیگز میں کمی کرنا ہوگی جو اس وقت خودرو پودوں کی طرح بڑھتی جارہی ہیں۔ آئی سی سی کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ جس وقت کوئی باہمی سیریز چل رہی ہو تو اس ٹیم کے کھلاڑیوں کو لیگز میں شرکت سے روکا جائے اور انہیں اپنی قومی ٹیم میں شرکت پر مجبور کیا جائے ورنہ کرکٹ میں مسابقت کا جذبہ اور قومی روح ختم ہوجائے گی۔
لکھاری جرمن نشریاتی ادارے سے منسلک ہیں، مختلف ٹی وی چینلز پر کرکٹ پر تبصروں کے لیے بطور مبصر شرکت کرتے ہیں اور کھیلوں پر ان کے تجزیے مختلف اشاعتی اداروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر Syedhaider512@ پر فالو کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔