پاکستان

پرویز الہٰی کے گھر پر چھاپے کے بعد ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کا تبادلہ

مسلح پولیس اہلکاروں کے چوہدری شجاعت حسین کے گھر میں گھسنے کی اطلاعات پر یہ معاملہ مرکزی حکومت کیلئے شرمندگی کا سبب بن گیا تھا۔

پنجاب کی نگراں حکومت نے چوہدری پرویز الہٰی اور چوہدری شجاعت کی رہائش گاہ پر پولیس کے چھاپے کے چند روز بعد لاہور کے ڈی آئی جی آپریشنز افضال کوثر کا تبادلہ کردیا، اس چھاپے سے حکومت کے اہم اتحادیوں میں کھلبلی مچ گئی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تبادلے کا حکم پنجاب کے عبوری وزیر اعلیٰ محسن نقوی کے مسلم لیگ (ق) کے صدر کی رہائش گاہ کا دورہ کرنے کے چند روز بعد سامنے آیا۔

نگراں وزیراعلیٰ نے چوہدری شجاعت کو یقین دلایا تھا کہ سابق وزیراعلیٰ کی گرفتاری کے لیے ’غیر معقول پولیس چھاپے‘ کے دوران اختیارات کے ناجائز استعمال کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

تاہم، ایک پولیس اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ ڈی آئی جی افضال کوثر کو پرویز الہٰی کی رہائش گاہ پر چھاپے کے لیے قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکمرانی کے لیے بھی اس وقت شرمندگی کا باعث بنا جب کچھ رپورٹس سامنے آئیں کہ مسلح پولیس اہلکار چوہدری شجاعت کی ملحقہ رہائش گاہ میں زبردستی داخل ہوئے۔

چوہدری شجاعت حسین کو منانے کے لیے وفاقی حکومت نے بھی آپریشن سے خود کو دور کر لیا تھا۔

قربانی کا بکرا

سرکاری ذرائع نے بتایا کہ لاہور ماڈل ٹاؤن ڈویژن کی ایس پی عمارہ شیرازی جو اس وقت پولیس آپریشن کی قیادت کر رہی تھیں ابتدائی طور پر چھاپے کے دوران بدانتظامی اور طاقت کے بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے ریڈار پر آئیں لیکن انہیں لاہور اور سینٹرل پولیس آفس کے کچھ اعلیٰ پولیس افسران نے ’بچا لیا‘۔

پولیس اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ ان افسران نے پولیس چیف پر زور دیا کہ وہ ایس پی کے حق میں وزن ڈالیں اور سارا الزام ڈی آئی جی افضال کوثر پر ڈال دیا گیا، جن کے تعلقات لاہور پولیس کے سربراہ بلال صدیق کمیانہ کے ساتھ اچھے نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ لاہور کیپٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے لیے زمان پارک میں ’ناکام آپریشنز‘ کے دوران ڈی آئی جی افضال کوثر کی ’ناقص کمانڈ‘ سے پہلے ہی ناخوش تھے۔

پرویز الہٰی کی رہائش گاہ پر چھاپے نے نگراں حکومت کو مداخلت کرنے اور محکمہ پولیس کو تبادلوں کا انتہائی ضروری موقع فراہم کیا، جس کی شروعات ڈی آئی جی افضال کوثر سے ہوئی، جن کی جگہ ڈی آئی جی علی ناصر رضوی نے لے لی۔

پنجاب پولیس کے سربراہ نے تقرر کے لیے ڈی آئی جی آئی ٹی احسن یونس، ڈی آئی جی ذیشان اصغر، گوجرانوالہ کے سی پی او رانا ایاز سلیم اور ناصر رضوی کے ناموں پر غور کیا۔

تاہم احسن یونس اور ذیشان اصغر نے واضح طور پر لاہور میں خدمات انجام دینے سے انکار کیا جس کے بعد ناصر رضوی کو اس عہدے پر تعینات کردیا گیا۔

کیریئر کے زیادہ تر پروجیکٹ گھر کا چولہا جلانے کیلئے کیے، نبیل ظفر

سپریم کورٹ نے ’غیرسنجیدہ درخواست‘ دائر کرنے پر وزارت دفاع پر جرمانہ عائد کردیا

کار بم دھماکے میں روس کے معروف مصنف زخمی، ایک شخص ہلاک