نقطہ نظر

جھبو لگون: کہ حیات کے دن کا سورج ڈوب چکا!

ایک جھیل کی بربادی ایک کلچر کی بربادی ہے، یہ سینکڑوں خاندانوں کو بے روزگار اور بے گھر کرنے کا گناہ ہے۔

اگر کڑی سے کڑی ملائیں تو زندگی کا تانا بانا لاکھوں بلکہ کروڑوں برسوں کی زمین پر کسی گورکھ دھندے کی طرح بچھا ہوا ہے۔ مگر سمندر کو کوزے میں اگر بند کرنے پر آئیں تو انسان کے ذہن نے ترقی بھی کی ہے اور دو الفاظ میں ساری کہانی بیان بھی کی جاسکتی ہے۔ ہم دُور کی پگڈنڈیاں بھی نہیں پکڑتے۔ ہم فقط ہاں اور نا، اچھا اور بُرا، مثبت اور منفی، دن اور رات، میٹھا اور کڑوا کے الفاظ تک ہی محدود کردیتے ہیں تاکہ ہمیں اس فلسفوں سے بھری حیات کو سمجھنے میں زیادہ آسانی ہو۔

یہ دسمبر 1992ء کے ابتدائی دنوں کا ذکر ہے۔ میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ اُس زمانے کی مشہور جھیل جھبو دیکھنے کے لیے نکل پڑا تھا۔ ہم تقریباً 2 بجے گولاڑچی شہر پہنچے، وہاں سے ہمیں پہلے اسمٰعیل تھہیمور کے گاؤں پہنچنا تھا جبکہ وہاں تک پہنچنے کے لیے ہمیں کچے راستے کی وجہ سے چھکڑے پر سفر کرنا تھا۔ ہم تینوں دوست چھکڑے کی چھت پر بیٹھ گئے۔ جہاں تک پکا راستہ تھا وہ اتنا اُدھڑا ہوا تھا کہ اس کا نہ ہونا ہی اچھا ہوتا۔ اس کے بعد جب ہمارا سفر احمد راجو سے پہلے گرھڑی پوسٹ سے مغرب کی طرف شروع ہوا تو راستہ کچا تھا، جاڑے کے دنوں میں کچے راستے کی مٹی خشک ہوتی ہے تو اُڑتی بہت ہے۔

بہرحال ہم نے مغرب کی طرف اندازاً 6، 7 کلومیٹر سفر کیا جس کے بعد ایک راستہ جنوب کی جانب مڑا اور سیم و تھور کی وجہ سے زمین کا رنگ سفید سے سیاہ ہوا تو راستہ ایک سیاہ سڑک کی طرح ہوگیا جیسے کہ مٹی میں نمک اور نمی کی وجہ سے مٹی چپک جاتی ہے اور اُڑتی نہیں ہے۔ سورج ڈوبنے والا تھا تو چھکڑے نے اپنی آخری منزل کا اعلان کیا اور ہم 2 کلومیٹر پیدل چل کر جب اسمٰعیل تھہیمور کے گاؤں کی اوطاق تک پہنچے تو مغرب کی طرف ڈوبے ہوئے سورج کی ہلکی سی سُرخی رہ گئی تھی۔

ٹھنڈ تھی مگر تھکان نہیں تھی۔ گھاس پھوس کی اوطاق کے بیچ میں کیکر کی لکڑیوں کا الاؤ جل رہا تھا اور ہم فرشی نشست پر بیٹھے گپے لگارہے تھے۔ رات کے کھانے میں مجھے یاد ہے کہ مرچیں کچھ زیادہ تھیں۔ مگر چونکہ چاول کی روٹی میں دیسی گھی ایسا رچا ہوا تھا اس لیے اُس کی مہک اور لذت کی وجہ سے آپ بغیر سالن کے بھی روٹی کھا سکتے تھے۔

رات کے کھانے کے بعد اسماعیل تھہیمور (اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے، خدا کی اُس پر رحمتیں ہوں) آئے۔ وہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کے حافظ تھے۔ جب وہ لطیف سائیں کا کوئی شعر پڑھتے تو ایسا لگتا جیسے ایک ایک لفظ اُن کی زبان سے کھنکتا ہوا نکل رہا ہو۔ شاہ عبداللطیف کی شاعری پڑھنے میں بہت زیادہ مشکل ہے کیونکہ زیر، زبر، پیش کے اوپر نیچے ہونے سے شعر کے معنیٰ تبدیل ہوجاتے ہیں مگر اسمٰعیل کو اس پر کمال حاصل تھا۔ اور پھر جب وہ ’سُر سسئی‘ کے شعر سنانے لگا جس میں سسئی کے اُس سفر کا ذکر لطیف سائیں نے کیا ہے جو اُس نے اکیلے پنوں کے لیے کیچ مکران کی طرف کیا تھا۔ اسمٰعیل شعر پڑھتے اور آنسو اُن کی آنکھوں سے کسی جھرنے کی طرح بہتے۔ پھر جب محفل اپنے جوبن کو پہنچی تب اسمٰعیل نے لطیف سائیں کا یہ شعر پڑھا۔

آئون نہ گڏي پرينءَ کي تون ٿو لھين سج

آئون جي ڏيانءِ سَنيھا نيئي پِريان کي ڏِجُ

وڃي ڪيچ چئج تہ ويچاري واٽ مُئي. (لطيف سائين)

(سسئی سفر میں ہے اور سورج ڈوبنے والا ہے، سسئی سورج سے مخاطب ہوتی ہے اور ایک تو اُس سے شکایت کرتی ہے کہ اے سورج، میں اپنے محبوب سے ابھی نہیں ملی اور تم مجھے اکیلا چھوڑ کر ڈوب رہے ہو۔ یہ سسئی کے سفر کا وہ اختتام ہے جو محبوبوں سے ملنے سے پہلے ہوتا ہے۔ اور اُسے یہ بھی پتا ہے کہ سورج تو ڈوبے گا۔ تب وہ سورج کو کہتی ہے کہ تم تو ڈوب رہے ہو میرا یہ کام تو کرو کہ میں جو یہ پیغام دے رہی ہوں وہ میرے محبوب تک پہنچا دینا۔ میں اپنے راستے پر ثابت قدم رہی، جتنا مجھ سے ہوسکتا تھا وہ میں نے تم تک پہنچنے کے لیے کیا۔ بس پنوں کو یہ کہنا کہ میں تمہاری یاد میں تمہاری طرف آنے والے راستے میں بے بس اور لاچار ہوکر مری)۔

اور ساتھ ہی اسمٰعیل کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ لطیف سائیں کو جس نے بھی روح سے پڑھا ہے میں نے اُن لوگوں کی آنکھیں بھیگی ہی دیکھی ہیں۔ اسمٰعیل ہچکیاں لیتا ہوا گاؤں کی طرف چلا گیا۔ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ مگر کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ درد ہمیشہ آپ کو آنسو اور خاموشی دیتا ہے۔ باہر ٹھنڈ تھی، ہم نے الاؤ میں کیکر کی لکڑی ڈالی، لکڑی سوکھی تھی تو آگ کی لپٹوں نے اُسے جلد ہی لپیٹ میں لے لیا کیونکہ جہاں پانی نہیں ہوتا وہاں فقط بربادی کی آگ جلتی ہے جس کو بھسم کرنے سوا کچھ نہیں آتا۔

دوسرے دن صبح کو ہم جلدی اُٹھے۔ چائے پی ناشتہ کیا، اسمٰعیل تھہیمور سے اجازت لی اور اُس کے گاؤں کے دو آدمیوں کو ساتھ لے کر ہم اُس جھیل کے لیے نکل گئے جسے دیکھنے کے لیے ہم یہاں آئے تھے۔ یہ جھیل اس گاؤں سے 3 کلومیٹر مغرب میں تھی۔ ہم گپے لگاتے پیدل چلتے گئے۔ ہمارے ساتھ جو لوگ گاؤں سے آئے تھے اُن کے پاس بندوقیں تھیں اور ہم مہمان تھے تو پرندوں کا شکار تو لازمی ہونا تھا۔ ہم گھومتے گھامتے شام کے 4 بجے جھیل کے شمال میں بنی گھاس پھوس کی جونپڑی میں پہنچے جہاں 2، 3 چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ ایک کونے میں لکڑی کا صندوق تھا جس میں کھانا پکانے کا سارا راشن تھا۔

یہ تو جنگل میں منگل تھا۔ یہ جھونپڑی جھبو جھیل سے مچھلی پکڑنے اور بیچنے والے ٹھیکے دار کی تھی، ہمارے واسطے 3 دنوں کے لیے ان گاؤں والوں نے جھونپڑی ٹھیکے دار سے لے لی تھی۔ ٹھیکے دار نے مہمانوں کا سنا تو گھی، چاول، آٹے سے لے کر چائے اور چینی تک کے سامان سے صندوق کو بھردیا تھا۔ نزدیک میں یعنی جھونپڑی کے شمال مغرب میں بلاول نہر جو جھبو کو میٹھا پانی فراہم کرتی تھی اُس پر بنے پُل پر ایک چھوٹا سا چائے کا ہوٹل تھا، جو نزدیکی گاؤں والوں کے لیے کچہری کا زبردست ٹھکانہ بھی تھا۔

جنوبی سندھ کے اس دریائی کنارے کی اپنی ایک الگ دنیا ہے۔ چونکہ یہاں دریا کا مرکزی بہاؤ بہت سارے چھوٹے بڑے بہاؤں کی صورت اختیار کرلیتا تھا یہی وجہ تھی کہ یہاں ندیوں کا ایک جال سا بچھ جاتا تھا۔ سندھو دریا کے وہ بھی دن تھے جب طغیانی کے موسم میں 150 ملین ایکڑ فٹ تک پانی آتا تھا۔ تو اتنے بے تحاشا پانی کو سمندر میں جانے کے لیے بہت سارے راستے بنانے پڑتے تھے۔ ہم اور زیادہ قدیم نہیں فقط 400 برس پہلے کی بات کررہے ہیں جب ٹھٹہ دریائے سندھ کا ایکٹو ڈیلٹا ہوا کرتا تھا۔ تب دریا 17 بہاؤں کی صورت میں سمندر میں جا گرتا تھا اور نئی زمین بناتا تھا۔

دریا کے یہ راستے مستقل نہیں ہوتے تھے بلکہ وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے تھے۔ تو دریا جو راستے چھوڑ دیتا تھا وہاں اکثر چھوٹی بڑی جھیلیں وجود میں آجاتیں۔ کبھی آسمان مہربان ہوتا کبھی کبھار دریا کا پانی آنکلتا۔ تو پانی کے ان راستوں میں مسلسل رہنے سے فطرت نے اُن کو اپنی عنایتوں سے گھاس پھوس، مچھلیوں، دوسری آبی حیات اور اس کے کنارے رہنے والے پرندوں اور جانوروں کا مسکن بنادیا۔

ڈیلٹا کے اس قدرتی نظام کی قدامت اور زرخیزی کے لیے ہم ’انڈس فلائے وے زون‘ (انڈس فلائی وے زون دنیا بھر کے ان 7 راستوں میں سے ایک ہے جو پرندے شدید موسمی حالات سے بچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور بعض صورتوں میں خوراک کی تلاش اور افزائشِ نسل کرتے ہیں۔ ہجرت کرنے والے پرندے روس اور چین میں سخت سردی سے بچنے کے لیے شمال سے پاکستان میں داخل ہونے کے لیے 4 ہزار 500 کلومیٹر سے زیادہ کا سفر طے کرتے ہیں اور جنوب کی طرف طاقتور دریائے سندھ کا پیچھا کرتے ہوئے زمین پر 300 سے زیادہ آبی ذخائر اور دوسرے پانی والے علاقوں میں رک جاتے ہیں) کو شاہد بنا سکتے ہیں۔

مگر فطرت کے تحفظ کے لیے یہاں حالات بہتر نہیں رہے ہیں۔ اگر بہتر رہتے تو آج سمندر، دریائے سندھ کے راستوں میں کبھی اپنا راستہ نہیں بناتا۔ جن کو آج کل ہم کریکس یا کھاڑیاں کہتے ہیں جن میں سمندر کا پانی بہتا ہے یہی دریائے سندھ کے سمندر میں جانے کے بہاؤ تھے۔ یہ اُن ڈیموں اور بیراجوں کی مہربانی ہے کہ انڈس ڈیلٹا کی اراضی جو ایک لاکھ ہیکٹر سے زیادہ پر پھیلی ہوئی تھی، اب سکڑ کر 6 ہزار ہیکٹر رہ گئی ہے۔

جھبو فقط ایک عام سی جھیل نہیں تھی، میں جب 1992ء میں یہاں گیا تھا تب یہ میٹھے پانی کی شاندار جھیل تھی۔ میرے پاس جھبو کے نیلگوں پانی اور اُس پر تیرتی کشتی جس پر میں بیٹھا ہوں کی یہ اکیلی تصویر ہے جو زمانے کی دھوپ چھاؤں سے بچ گئی ہے۔ میری جہاں تک نظر جاتی پانی ہی پانی تھا اور جھیل کے مرکز میں پانی کی گہرائی شاید 10، 12 فٹ تو یقیناً ہوگی۔

پھر جیسے کنارے نزدیک آتے جاتے پانی کم ہوتا جاتا اور پھر وہاں کناروں پر سرکنڈوں اور پھوس (Reeds) کی ہریالی کی ایک دنیا اُگی ہوتی، جن میں کئی پرندوں کے گھونسلے بنے ہوئے تھے۔ یہاں پرندے اور مچھلی اتنی بے تحاشا کہ میں بھی یقیناً حیران تھا کہ اتنی وافر تعداد و مقدار میں پرندے اور مچھلیاں بھی ہوسکتی ہیں کیا؟ مگر جھبو جو قدرتی حیات اور خوبصورتی سے بھری جھیل تھی وہاں یہ سب بے حساب تھا۔ میں نے وہاں بگلوں، آڑیوں (Coots) مرغابیوں کے کئی جُھنڈ دیکھے اور بھی کئی مقامی پرندے تھے۔

میں نے وہاں کچھ آسمان پر اُڑتے Marsh harrier اور Hen harrier بھی دیکھے تھے۔ میں جب اس جھیل کے کنارے 3 دن اور راتیں گزار کر واپس گھر لوٹا تھا تو کئی دنوں تک کانوں میں پرندوں کی آوازیں، شمال کی تیز ٹھنڈی ہوا سے سرکنڈے کے جھولنے کی ایک عجیب سرسراہٹ اور مچھلی پکڑنے کے لیے پانی میں جال پھینکنے کی مخصوص آوازیں میرے ساتھ رہیں۔

بلاول نہر جو 1988ء میں اس جھیل کو پانی دینے کے لیے کھودی گئی تھی، جب میں وہاں گیا تھا تب اس نہر کا پانی جھیل میں بہتا تھا اور خوب بہتا تھا۔ مگر 1995ء تک اُس نہر میں ریت جمع ہوگئی۔ ایریگیشن والوں نے بل ضرور بنائے مگر ریت نہیں نکالی اس لیے اس نہر میں پانی آنا کم ہوگیا۔

1997ء تک تو وہ بالکل ہی ناکارہ ہوگئی اور جھبو میں میٹھا پانی کم آنے کی وجہ سے جنوب میں سمندر کی موجودگی اور کوٹڑی ڈاؤن اسٹریم سے پانی نہ جانے کے باعث سمندر کا پانی شمال کی طرف آگے بڑھنے لگا۔ زرخیز زمینوں کو روندتا ہوا وہ جنوبی سندھ کی ان جھیلوں تک آپہنچا۔ یہ جھیلیں نہ صرف قدرتی طور پر مقامی لوگوں کی خوراک اور روزگار کا ذریعہ تھیں بلکہ سمندر کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے بھی زمین کے نیچے میٹھے پانی کی ایک دیوار بنا کر یہ سمندر کو آگے بڑھنے سے روکنے کا کام بھی کرتیں۔ مگر میٹھے پانی کی کمی کی وجہ سے یہ جھیلیں لگون میں تبدیل ہوگئیں۔

اتفاق یہ ہوا کہ جنوبی سندھ کے ساحلی کنارے پر موجود جھیلیں جیسے پٹیجی، واریارو، نریڑی اور جھبو اسی صورتحال سے گزر رہی تھیں۔ اُن دنوں آئی یو سی این نے انڈس ڈیلٹا کا ایک ماحولیاتی سروے کیا جس میں جھبو کی سروے رپورٹ کچھ اس طرح بنی کہ ’جھبو 706 ہیکٹر پر پھیلا ایک شاندار لگون ہے جہاں مقامی لوگ ماہی گیری کرتے ہیں اور لگون میں موجود گھاس یہاں کے مویشیوں کے لیے اچھا چارہ فراہم کرتی ہے۔

’سردیوں کے موسم میں انڈس فلائی وے زون کے راستے ہزاروں کی تعداد میں پرندے یہاں آتے ہیں اور ساتھ ہی یہ مقامی پرندوں کی رہائش اور تحفظ کے لیے ایک اچھی جگہ ہے۔ جھبو یہاں کی دوسری جھیلوں جیسے چولری، پٹیجی، نریڑی اور واریارو کے سلسلے سے جڑی ہوئی لگون ہے۔‘ اس سروے کے بعد اس کو اہم لگون جانا گیا اور رامسر (RAMSAR) سائیٹ قرار دینے کے لیے اس کا ڈیٹا اس ادارے کو بھیجا گیا۔ اور مئی 2001ء کو اس لگون کو 1067 ریفرنس نمبر دے کر ’رامسر سائیٹ‘ قرار دے دیا گیا۔

مگر جب اس کو رامسر سائیٹ قرار دیا گیا تب تک بہت کچھ تبدیل ہوگیا تھا۔ سائیکلون اے ٹو 1999ء نے یہاں کی ان میٹھے اور سمندری پانی کی جھیلوں کا حلیہ ہی تبدیل کردیا۔ زیادہ تر جھیلیں اور نہریں اس سائیکلون میں ریت سے بھر گئی تھیں۔ اگر گورنمنٹ چاہتی تو اس سائیکلون کی بربادی سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل نکال سکتی تھی۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ جھبو اور نریڑی کے پاس فقط رامسر سائیٹ ہونے کے اعزاز رہ گئے۔ باقی جس بنیاد پر وہ اعزاز ملا تھا وہ وجہ برباد ہوچکی تھی۔

میں 2011ء میں، یو این او کے مسعود لوہار صاحب کے ساتھ اس رامسر سائیٹ جھبو لگون دیکھنے کے لیے گیا۔ جون کا مہینہ تھا۔ ہم بلاول نہر کے اُس پل پر پہنچے جہاں 1992ء میں چائے کے ہوٹل پر چائے پی تھی۔ اطراف کے چھوٹے چھوٹے گاؤں ہونے کی وجہ سے لوگ ہوٹل پر آتے، بیٹھتے، چائے پیتے، کچھ زمانے کی باتیں کرتے اور چلے جاتے۔ اب وہاں کچھ نہیں تھا، بلاول شاخ کو سوکھے برسوں ہوگئے تھے۔ وہاں ہوٹل تو کیا، دُور دُور تک کسی انسان کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ وہ گھاس پھوس کی جھونپڑی جہاں ہم نے 2، 3 دن گزارے تھے۔ وہاں جنگلی جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں۔ جھیل کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ میری نظر جہاں تک جاتی جنگلی جھاڑیاں اور سوکھی زمین پھیلی ہوئی تھی۔

مجھے یقین کرنے میں بہت وقت لگا کہ یہی وہ جھبو ہے۔ جس کے نیلگون پانی کی سطح پر میں نے کشتی میں سارا دن گزارا تھا۔ جہاں میٹھے پانی کی گہرائی 10، 12 فٹ تھی۔ آپ سوچیں اور اندازہ کریں کہ ایک ایسی جھیل جو 706 ہیکٹر پر پھیلی ہوئی تھی، جس کو ’رامسر سائیٹ‘ کا اعزاز اس لیے ملا تھا کہ یہاں سرد علاقوں سے آنے والے ہزاروں پرندے جاڑے کے دن گزارتے اور سردیاں ختم ہوتے واپس لوٹ جاتے تھے۔ ساتھ میں مقامی جنگلی حیات کو رہنے اور پھلنے پھولنے کے مواقع یہ جھیل مہیا کرتی تھی۔ جو جھیل 100 سے زائد ماہی گیر خاندانوں کو روزگار فراہم کرتی تھی، وہ ہماری غیر ذمہ داری اور لالچ کی بھینٹ چڑھ چکی تھی۔

وہ لوگ جن کے سیکڑوں گھر اور خاندان اس جھیل کے کنارے پر آباد تھے اُن کو ذریعہ معاش کی پریشانی نہیں تھی۔ بلکہ وہ بڑے خوش تھے۔ مچھلی اور پرندوں کی صورت میں جہاں اُن کو روزگار ملتا وہاں اُن کے لیے ایک اچھی خوراک کا بھی فطرت نے بندوبست کردیا تھا۔ ساتھ میں گائیں اور بکریوں کو چارہ جھیل سے ملتا اور مکھن چھاچھ اُن کو آسانی سے دستیاب ہوجاتا۔

ہمارا ذہن فقط زراعت تک کیوں محدود ہے؟ کیا زراعت کے سوا اور کچھ بھی ضروری نہیں ہے؟ نہ سمندر کے کنارے، جھیلیں، جنگل ان میں سے کچھ بھی اہم نہیں ہیں کیا؟

پاکستان کے آبپاشی نظام پر 3 کروڑ 50 لاکھ ایکڑ پر کاشتکاری کی جاتی ہے، پاکستان میں دریائی بہاؤ پر پانی جمع کرنے کے 3 ڈیم بنائے گئے ہیں، جن میں 20 ایم اے ایف تک پانی اسٹور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ 12 لنک کینال تعمیر کیے گئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دریائے سندھ کا سالانہ بہاؤ اوسطاً 150 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ اب اس پوری صورتحال کو دیکھیں تو سارا نزلہ آپ کو کوٹری ڈاؤن اسٹریم پر گرتا نظر آئے گا، جس کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زرعی زمین برباد ہوچکی ہے اور ہورہی ہے۔

محکمہ ریوینیو کی رپورٹ کے مطابق 1980ء تک 12 لاکھ ایکڑ زرعی زمین سمندر کی نذر ہوگئی تھی اور اب 2018ء تک ڈیلٹا کی 35 لاکھ ایکڑ زرعی زمین یا تو سمندر نگل گیا ہے یا سمندر کے شوریدہ پانی کی وجہ سے زمینوں نے اپنی زرخیزی گنوادی ہے، یہاں تک کہ اب گھاس کا ایک تنکا تک نہیں اُگتا۔

ایک جھیل کی بربادی ایک کلچر کی بربادی ہے۔ سیکڑوں خاندانوں کو بے روزگار اور بے گھر کرنے کا گناہ ہے۔ یہ ماحولیات کی بربادی ہے جس کے اثرات پڑنے کی ابتدا ہوگئی ہے۔ ماحولیاتی بربادیاں لاکھوں لوگوں کو انتہائی لاچاری کی حالت میں نقل مکانی کرنے پر مجبور کرتی ہیں، جس سے شہروں پر دباؤ بڑھتا ہے۔

بلکہ کہنا تو یہ چاہیے کہ قدرت نے جس طرح اپنے طریقوں سے انسانوں کو آباد کیا ہے۔ اُن وسائل کو برباد نہ ہونے دیں بلکہ کوشش کریں کہ وہ وسائل جو ہماری کم عقلی اور غلطیوں کی وجہ سے برباد ہوگئے ہیں اُن کو نئے سرے سے پھر آباد کریں۔ یہ سب کرنے سے جہاں ماحولیات میں آئی ہوئی منفی شدت کم ہوگی وہاں ہم نقل مکانی اور کئی نفسیاتی مسائل کو بھی روک سکیں گے۔

اب فیصلہ آپ کریں کہ ایک جھیل یا جھیلوں کا مرنا، صحیح ہے یا غلط؟

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔