پاکستان

سیلاب کے بعد سے 8 لاکھ پاکستانیوں کو بھوک کا سامنا ہے، اقوامِ متحدہ

پاکستان میں بھوک کی شدت میں 25 فیصد سے 43 فیصد تک اضافہ تمام صوبوں بالخصوص سندھ میں ایک بگڑتی ہوئی صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے، رپورٹ

اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سالِ گزشتہ کی آخری سہ ماہی میں پاکستان کے تین صوبوں کے دیہی اضلاع میں86 لاکھ افراد کو خوراک کے سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ مون سون کے بدترین سیلاب نے ملک کو متاثر کردیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق افراد میں سندھ کے 9 اضلاع کے 52 لاکھ افراد، خیبرپختونخوا کے 7 اضلاع کے 18 لاکھ جبکہ بلوچستان کے 12 اضلاع کے 16 لاکھ افراد شامل تھے۔

اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کی جانب سے خوراک کے بحران پر جاری کردہ تازہ ترین عالمی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ 58 ممالک میں تقریباً 25 کروڑ 80 لاکھ افراد کو بحران کی سطح پر شدید بھوک کا سامنا ہے۔

اس کے علاوہ دنیا کے 7 ممالک میں لوگوں کو ممکنہ فاقوں کا سامنا ہے جس میں صومالیہ، جنوبی سوڈان، یمن، افغانستان، نائیجیریا، ہیٹی اور برکینا فاسو شامل ہیں۔

مسلسل 7 سال سے جاری ہونے والی رپورٹ میں سامنے آنے والی یہ اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے، البتہ اعداد و شمار میں یہ نمو آبادی میں اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ پاکستان میں بھوک کی شدت میں 25 فیصد سے 43 فیصد تک اضافہ تمام صوبوں خاص طور پر سندھ میں ایک نمایاں طور پر بگڑتی ہوئی صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں پانچ ایسے علاقے جنہیں پہلے بحران زدہ کے طور پر درجہ بند کیا گیا تھا اور اب ہنگامی حالت پر منتقل کردیا گیا۔

مجموعی طور پر بحران میں تجزیہ شدہ آبادی کا حصہ 19 فیصد سے بڑھ کر 30 فیصد ہو گیا، جب کہ ہنگامی حالت کے علاقوں کا تناسب 6 فیصد سے بڑھ کر 13 فیصد ہو گیا۔

پاکستان کو 2017 کے بعد سے ایک ’بڑے‘ غذائی بحران کے طور پر بیان کیا گیا ہے جب اس کی تجزیہ کردہ آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ تیسرے درجے کے بحران یا اس سے اوپر تھا۔

موسم کی شدت

پاکستان میں گزشتہ برس کے تباہ کن سیلاب سے قبل ہی مارچ اور اپریل میں ہیٹ ویوز، کھاد کی قلت اور آبپاشی کے پانی کی قلت زیادہ تر تجزیہ کردہ اضلاع میں ’ربیع‘ کی گندم کی فصل کی پیداوار کو متاثر کرتی تھی اور مویشیوں کی پیداوار میں بھی کمی آئی تھی۔

اس کے بعد سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ نے بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی تھی جس نے چھ میں سے پانچ خطوں کے تقریباً 3 کروڑ افراد کی زندگیوں اور معاش میں خلل ڈالا۔

سیلاب سے تقریباً 44 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی کو نقصان پہنچا، جس سے چاول، مکئی، جوار اور جوار کی 2022 کی پیداواری پیشی گوئیاں بھی کم رہیں اور ایک اندازے کے مطابق تقریباً 8 لاکھ مویشیوں ہلاک ہوئے۔

زراعت کے شعبے میں ہوئے مجموعی نقصان کا تخمینہ تقریباً 13 ارب ڈالر لگایا گیا، جس میں بنیادی طور پر فصلیں (82 فیصد) اس کے بعد لائیوسٹاک (17 فیصد) شامل ہیں۔

اس کے علاوہ اکتوبر-دسمبر میں ’ربیع‘ گندم کی فصل کی بوائی میں مقامی علاقوں میں رکاوٹ پیدا ہوئی جو اس وقت بھی سیلابی پانی کی زد میں تھے۔

گوگل اپنا پہلا فولڈ ایبل فون پیش کرنے کو تیار

آرمی چیف کے اہلِ خانہ کے ڈیٹا تک رسائی پر نادرا ملازمین کےخلاف فوجداری کارروائی شروع

پاکستان کی سلامتی کونسل میں ’من مانی تبدیلیوں‘ کی مخالفت