پاکستان

ہفتہ وار مہنگائی نئی بلند ترین سطح 48.35 فیصد پر پہنچ گئی

سال بہ سال ایس پی آئی گزشتہ سال اگست سے مسلسل بڑھ رہا ہے اور زیادہ تر 40 فیصد سے اوپر رہا ہے۔
|

پاکستان شماریات بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق 4 مئی کو ختم ہونے والے ہفتے میں مشترکہ آمدنی والے گروپ کے لیے حساس قیمت انڈیکس (ایس پی آئی) کے ذریعے پیمائش کی جانے والی ہفتہ وار افراط زر سال بہ سال غیر معمولی طور پر 48.35 فیصد تک پہنچ گئی۔

اس سے قبل 19 اپریل کو ختم ہونے والے ہفتے میں سال بہ سال قلیل مدتی افراط زر کی سب سے زیادہ فیصد ریکارڈ کی گئی تھی، جو 47.23 فیصد تھی۔

جہاں تک 4 مئی کو ختم ہونے والے ہفتے کا تعلق ہے تو شماریات بیورو کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ قلیل مدتی افراط زر میں ہفتہ وار 1.05 فیصد اضافہ ہوا کیونکہ چکن، آلو، خشک دودھ، دالوں، انڈے، مٹن اور روٹی کی قیمتوں میں ’بڑا اضافہ‘ دیکھا گیا۔ اس دوران جوتے اور صابن سمیت غیر کھانے کی اشیا بھی مہنگی ہو گئیں۔

ایس پی آئی ملک بھر کے 17 شہروں میں 50 بازاروں کے سروے کی بنیاد پر 51 ضروری اشیا کی قیمتوں پر نظر رکھتا ہے۔ زیر جائزہ ہفتے کے دوران 30 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ، 9 کی قیمتوں میں کمی اور 12 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔

سال بہ سال ایس پی آئی گزشتہ سال اگست سے مسلسل بڑھ رہا ہے اور زیادہ تر 40 فیصد سے اوپر رہا ہے۔

یہ گزشتہ سال 18 اگست کو بڑھ کر 42.31 فیصد تک پہنچ گیا تھا، اس کے بعد اُسی سال یکم ستمبر کو 45.5 فیصد اور رواں سال 22 مارچ کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران 46.65 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔

رواں سال 19 اپریل کو ختم ہونے والے ہفتے میں ایس پی آئی نے 47.23 فیصد کی بلند ترین سطح کو چھوا تھا۔

مزید برآں، روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی، پیٹرول کی مہنگی قیمتوں، سیلز ٹیکس میں اضافے اور بجلی کے بلند چارجز کی وجہ سے رمضان کے آغاز سے ایس پی آئی میں بھی زیادہ تر اضافہ ہوا ہے۔ خراب ہونے والی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا ایک سبب نقل و حمل کے چارجز کا زیادہ ہونا ہے۔

مہنگائی پر قابو پانے کے لیے حکومت نے جو اب تک واحد ذریعہ استعمال کیا ہے وہ شرح سود میں مسلسل اضافہ ہے، جو بڑھ کر 21 فیصد تک پہنچ چکی ہے جو ملکی تاریخ میں ایک ریکارڈ سطح ہے۔

حکومت مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے آمدنی پیدا کرنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کے تحت ایندھن اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ، سبسڈیز کا خاتمہ، مارکیٹ کی بنیاد پر شرح تبادلہ اور زیادہ ٹیکس جمع کرنے کے لیے سخت اقدامات کر رہی ہے، جس کا نتیجہ آنے والے مہینوں میں سست اقتصادی ترقی اور بلند افراط زر کی صورت میں آسکتا ہے۔

تاہم حکومت نے مہنگائی اور کفایت شعاری کے تمام اقدامات کرنے کے باوجود ابھی تک آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ حاصل نہیں کیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں اضافے، زیادہ تر اشیا پر سیلز ٹیکس اور 800 سے زائد درآمدی کھانے اور غیر کھانے کے آئٹمز پر 25 فیصد سیلز ٹیکس سے اشیائے خورونوش کی خوردہ قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔

سب سے زیادہ سالانہ اضافہ

سب سے زیادہ سالانہ کمی

سب سے زیادہ ہفتہ وار اضافہ

سب سے زیادہ ہفتہ وار کمی

خیبرپختونخوا: کرم میں 8 افراد کی ہلاکت کےخلاف شہریوں کا احتجاج

ماں کے پیٹ میں ہی بچے کے دماغ کا کامیاب آپریشن کرنے کا دعویٰ

چوتھا ون ڈے: پاکستان کی نیوزی لینڈ کو 102 رنز سے شکست