پاکستان

بی جے پی کے جھوٹے پروپیگنڈے کی نفی ہوگئی کہ ہر مسلمان دہشتگرد ہے، وزیر خارجہ

پاکستان کا اصولی مؤقف ہے کہ بھارت اگست 2019 کے یکطرفہ غیرقانونی اقدام واپس لے اور ایسا سازگار ماحول پیدا کرے جس میں بات چیت ہو سکے، وزیر خارجہ

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے دورہ بھارت کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اس جھوٹے پروپیگنڈے کی نفی کردی گئی ہے کہ ہر مسلمان دہشت گرد ہے۔

بھارت میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت سے واپسی پر کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے تنقید میں ان کو عدم تحفظ ہے اور وہ اس لیے ہے کیونکہ بھارت میں بالخصوص ایک ایسی جماعت کے ذریعے جھوٹا پروپیگنڈا پھیلایا جارہا ہے جس کی نمائندگی اس کا وزیر خارجہ کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس پروپیگنڈا کی میرے جانے اور اپنا مؤقف رکھنے سے اس بیانیے کی نفی ہوئی ہے جب وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہر مسلمان دہشت گرد ہے تاکہ وہ اس پروپیگنڈے کو پھیلا کر انتخابات جیت سکیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ دہشت گردی اور کشمیر کے معاملے پر پاکستانی نمائندے اجلاس میں بھارتی پروپیگنڈے کو ناکام کرتے ہیں اور یہ بات ان کو کڑوی لگتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ اپنی پریس کانفرنس میں اتنے جذباتی لگ رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ کیا ایک انتہا پسند تنظیم کے احتجاج، مجھ پر سر کی قیمت رکھنے یا بھارتی وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس کے ڈر سے پاکستان، بھارت کی سرزمین پر جاکر شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں اپنا مؤقف رکھنے سے پیچھے ہٹ جاتا۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس خطے کے عوام سرحد کے دونوں طرف امن چاہتے ہیں اور ہماری کوشش ہوگی کہ امن کی طرف بڑھتے رہیں۔

بھارتی وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس پر ان کا کہنا تھا کہ ان کا مؤقف ایک مذاق ہے جو کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے متاثرین دہشت گردی کے مرتکب کے ساتھ نہیں بیٹھتے، کیا میں ایک دن بھی کسی دہشت گرد کے ساتھ بیٹھا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ان (بھارتی حکومت) میں نفرت اتنی عروج پر پہنچ چکی ہے کہ وہ سارے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینا چاہتے ہیں، ان کو یہ نظر نہیں آتا کہ ہم اپنے ملک میں بھی دہشت گردوں کے خلاف صف اول کا کردار ادا کرتے ہیں۔

’بھارت کو بات چیت کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنا ہوگا‘

قبل ازیں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کے بعد بھارت میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جہاں تک مسئلہ کشمیر اور دوطرفہ تعلقات ہیں تو اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، لیکن شنگھائی تعاون تنظیم باہمی تعلقات کی بات ہے اس لیے اس میں بھرپور شرکت کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کی وجہ سے پاکستان کے وزیر خارجہ کو ایس سی او میں جتنے بھی وزرائے خارجہ ہیں ان سے الگ الگ ملاقات کا موقع ملا۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ جہاں تک دوطرفہ تعلقات کی بات ہے تو پاکستان پیپلز پارٹی کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ معمول کے تعلقات چاہتے ہیں اور یہ ہمارے ہر منشور کا حصہ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی تسلسل میں شہید محترمہ بےنظیر بھٹو نے اپنی طرف سے کوششیں کیں اور سابق صدر آصف زرداری نے بھی کوششیں کیں لیکن موجودہ صورتحال میں بالخصوص اگست 2019 میں بھارت کے غیرقانونی یکطرفہ قدم نے نہ صرف عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی بلکہ دوطرفہ تعلقات کی بھی خلاف ورزی کی۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بھارت کے اس قدم نے حالات ایسے تبدیل کردیے ہیں کہ وہ جماعتیں بالخصوص پیپلز پارٹی جو ہمیشہ سے یہ کہتی رہی کہ بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے چاہئیں اس کے لیے بھی اس بات کا اسپیس ختم ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا اصولی مؤقف ہے کہ اگر بھارت اگست 2019 کے غیرقانونی یکطرفہ اقدام کو واپس لے اور ایسا سازگار ماحول پیدا کرے جس میں بات چیت ہو سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر بات چیت کی جاتی ہے تو اس کے اختتام پر ایک دستاویز آتی ہے جس پر ہمیں بھی اور بھارت کو بھی دستخط کرنے ہوتے ہیں لیکن بھارت نے ایک قدم سے اپنے دوطرفہ معاہدوں، بین الاقوامی عزائم کی خلاف ورزی کی ہے تو اب عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ پہلے کے باہمی معاہدوں کی یکطرفہ خلاف ورزی کر سکتے ہیں تو اگر اب بات چیت شروع ہو اور اس کے نتیجے میں کوئی معاہدہ طے پاتا ہے تو یہ اس کی بھی یکطرفہ خلاف ورزی کریں گے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ایس سی او کی ایک خوبی ہے جس میں کچھ ضوابط بنائے ہوئے ہیں اور ہم پر پابندی ہے کہ اپنے مسائل اس فورم پر نہیں اٹھائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 2026 میں ایس سی او کی چیئرمین شپ ہمارے پاس ہوگی اور ہماری کوشش ہوگی کہ سفارتی کوششوں سے بھارت بھی کوئی ایسا فیصلہ کرے کہ اس وقت کے اجلاس میں وہ شرکت کریں۔

ایک اور سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم پاکستان میں دہشت گردی کا مقابلہ اس لیے نہیں کرنا چاہتے کہ بھارت نے ہمیں بتایا، ہم دہشت گردی کا مقابلہ اس لیے کرتے ہیں کیونکہ اس میں سب سے زیادہ پاکستانی متاثر ہوئے ہیں، ہم اس کا نقصان برداشت کر رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے دورہ بھارت پر تنقید کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ بطور وزیر خارجہ میں نے کوشش کی ہے کہ ہماری اندرونی سیاست پاکستان کی سرحدوں تک محدود رہے کیونکہ جب میں باہر جاتا ہوں تو پورے پاکستان کی نمائندگی کرتا ہوں جس میں یہ مخصوص پارٹی کے لوگ بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں بھارتی وزیر خارجہ کے کردار سے مطمئن ہوں اور امید کرتے ہیں کہ 2026 میں جب پاکستان کو اس کی چیئرمین شپ کا موقع ملے گا تو ہم بھی کامیاب اجلاس منعقد کریں گے۔

مدیحہ امام کی شوہر سے متعلق وضاحت

مائیگرین کے درد پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے؟

چوتھا ون ڈے: پاکستان کی نیوزی لینڈ کو 102 رنز سے شکست