دنیا

عالمی آزادی صحافت کی درجہ بندی میں بھارت کی پاکستان سے 11 درجے تنزلی

دولت مند تاجروں کے میڈیا کو اپنے ہاتھ میں رکھنے، حکومتی حامیوں کے اہم ذرائع اور رپورٹرز کو ہراساں کرنے کی وجہ سے بھارت کی درجہ بندی میں تنزلی کی گئی۔

بین الاقوامی صحافتی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز(آر ایس ایف) نے سیاسی رہنماؤں سے قریبی تعلق رکھنے والے دولت مند تاجروں کی جانب سے میڈیا کو اپنے ہاتھ میں رکھنے اور حکومت کے حامیوں کی جانب سے اہم ذرائع اور رپورٹرز کو ہراساں کرنے کے باعث بھارت کی آزادی صحافت کی درجہ بندی میں تنزلی کر دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عالمی یوم آزادی صحافت پر آر ایس ایف کی جاری کردہ 2023 ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق پاکستان اب 180 ممالک اور خطوں میں سے 150 ویں نمبر پر ہے، جو پڑوسی ملک بھارت سے 11 درجے زیادہ ہے جبکہ پڑوسی ملک 161 نمبر پر آیا ہے۔

صحافیوں کے خلاف تشدد، سیاسی طور پر متعصب میڈیا اور میڈیا کی ملکیت کا ارتکاز یہ سب ظاہر کرتے ہیں کہ ’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘ میں آزادی صحافت بحران کا شکار ہے۔

سال 2022 کی درجہ بندی میں بھارت 150 نمبر پر تھا، جب کہ پاکستان 157 نمبر پر آیا تھا۔

رپورٹ میں ایشیا میں صحافت کے لیے بدترین مقامات کے طور شمالی کوریا (180ویں)، چین (179ویں)، ویتنام (178ویں) میانمار (173 ویں) پر درجے کو یکجا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’ایشیا کی یک جماعتی حکومتیں اور آمریتیں وہ ہیں جو صحافت کو سب سے زیادہ تنگ کرتی ہیں، جہاں لیڈر عوامی گفتگو پر اپنی مطلق العنان گرفت مضبوط کرتے ہیں‘۔

تاہم رپورٹ میں سیاسی رہنماؤں کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والے طبقے کی ذرائع ابلاغ کے حصول پر تشویش کا اظہار کیا گیا ’خاص طور پر بھارت میں، ’جہاں مرکزی دھارے کا تمام میڈیا اب وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی امیر تاجروں کی ملکیت ہے‘۔

آر ایس ایف کی رپورٹ میں کہا گیا کہ نریندر مودی کے حامیوں کی ایک فوج ہے ’جو حکومت کے لیے تنقیدی سمجھی جانے والی تمام آن لائن رپورٹنگ کا سراغ لگاتے ہیں اور ذرائع کے خلاف ہراساں کرنے کی خوفناک مہم چلاتے ہیں‘۔

یوں انتہائی دباؤ کی ان دو صورتوں کے درمیان پھنسے بہت سے صحافی عملی طور پر خود کو سنسر کرنے پر مجبور ہیں۔

یہی رجحان بنگلہ دیش (163 ویں درجے) میں پایا گیا، جہاں آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ آنے والے مہینوں میں ہونے والے انتخابات کے دوران آزاد میڈیا پر حکومتی ظلم و ستم میں شدت آ گئی ہے۔

ایک اور علاقائی مسئلہ جس پر یہ روشنی ڈالتا ہے وہ ہے ’غیر محدود سوالات اور ممنوعہ مضامین‘ جو صحافیوں کو آزادانہ کام کرنے سے روکتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’یہ معاملہ واضح طور پر افغانستان میں (152 واں) ہے، جہاں طالبان کی حکومت اسلامی قانون کے اپنے سخت ورژن سے ہٹنا برداشت نہیں کرتی اور جہاں خواتین صحافیوں کو میڈیا کے منظر نامے سے لفظی طور پر مٹانے کے عمل میں ہے‘۔

آر ایس ایف کی درجہ بندی میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر دنیا کے صرف 52 ممالک کو صحافت کے لیے ’اچھا‘ یا ’کافی اچھا‘ ماحول فراہم کرنے کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔

سرخ لکیریں

تاہم کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی نے ’میڈیا پر پابندیاں ڈھیلی کر دی ہیں‘، حالانکہ یہ صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے اور یہاں ’ہر سال تین سے چار صحافی قتل ہوتے ہیں‘ جن کے مجرموں کو سزا بھی نہیں ملتی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی صحافی جو سرخ لکیروں کو عبور کرتا ہے وہ انتہائی سخت نگرانی کا نشانہ بنتا ہے اور ریاست کی جیلوں یا کم سرکاری جیلوں میں مختلف مدت کے لیے اغوا اور حراست کا باعث بن سکتا ہے۔

صحافیوں کے کمزور تحفظ پر روشنی ڈالتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021 میں منظور ہونے والے صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے تحفظ کا ایکٹ رپورٹرز کے لیے ایک مخصوص ’طرزِ عمل‘ کو اپنانے سے مشروط ہے اور جو لوگ حکام کی طرف سے طے شدہ مضمر خطوط کو عبور کرتے ہیں وہ بھاری انتظامی دباؤ، مجرمانہ سزاؤں مثلاً بغاوت کا شکار بنتے ہیں۔

بلاول بھٹو شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں شرکت کیلئے آج بھارت روانہ ہوں گے

اداکارہ مدیحہ امام رشتہ ازدواج میں منسلک، انسٹاگرام سے تمام تصاویر ڈیلیٹ کردیں

شاہد خاقان عباسی کا چیف جسٹس کو پارلیمنٹ میں طلب کرنے کا مطالبہ