ایک دہائی کے اخراجات کا حساب دینے کیلئے رجسٹرار سپریم کورٹ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں طلب
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو 16 مئی کو طلب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے حکم پر عمل نہ کیا تو وہ وارنٹ گرفتاری جاری کردے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی اے سی کے چیئرمین نور عالم خان نے خبردار کیا کہ تعمیل نہ کرنے کی صورت میں کمیٹی رجسٹرار کے وارنٹ گرفتاری جاری کرے گی اور اگر عدالت وارنٹ گرفتاری پر حکم امتناع جاری کرے گی تو ہم رجسٹرار کو دوبارہ طلب کریں گے’۔
انہوں نے عدالت عظمیٰ کے 2010 سے 2021 تک کے اکاؤنٹس کے آڈٹ کا بھی مطالبہ کیا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پی اے سی نے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کا مطالبہ کیا ہو، کمیٹی نے گزشتہ ماہ اور مارچ میں ججوں کی تنخواہوں، مراعات اور مراعات کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ عدالت عظمیٰ کے ججز کو کیا تنخواہ، مراعات اور مراعات حاصل ہیں۔
نور عالم خان نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے بھاشا ڈیم یا مہمند ڈیم کے لیے فنڈز اکٹھے کیے، اکاؤنٹس کی تفصیلات کو پبلک کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ قوم کا پیسہ ہے‘۔
انہوں نے آڈیٹر جنرل کو صدر، وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کے اراکین کی تنخواہوں، مراعات اور سہولیات سے متعلق ڈیٹا جمع کرانے کی بھی ہدایت کی۔
اس کے علاوہ پی اے سی نے کار اسمبلرز اور فرٹیلائزر کمپنیوں کی جانب سے مبینہ استحصال کی تحقیقات کے لیے دو ذیلی کمیٹیاں بھی تشکیل دیں۔
کار اسمبلرز، فرٹیلائزر کمپنیاں
پی اے سی اراکین نے نے کار اسمبلرز کی جانب سے صارفین کا استحصال کیے جانے پر ناراضگی کا اظہار کیا جس پر کمیٹی نے ایک ذیلی کمیٹی قائم کردی۔
نور عالم خان نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہدایات کے باوجود کار اسمبلرز آڈیٹر جنرل کے دفتر کو اپنی دستاویزات کی جانچ پڑتال کے لیے رسائی دینے سے انکار کر رہے ہیں۔
پی اے سی کے سربراہ نے کہا کہ ’کار اسمبلرز اپنے صارفین سے مکمل پیشگی ادائیگیوں کے علاوہ اضافی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن گاڑیاں 2 سے 3 سال تاخیر سے فراہم کر رہے ہوتے ہیں‘۔
اراکین نے تیار ہونے والی کاروں کے معیار پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا اور انہیں غیر معیاری قرار دیا۔
اس کے علاوہ پی اے سی چیئرمین نے کھاد کی مہنگی قیمتوں پر فروخت کی تحقیقات کے لیے ایک اور ذیلی کمیٹی تشکیل دی۔
کھاد کی قیمت بعض معاملات میں 6 ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے ایسے وقت کہ جب پیداوار کی لاگت صرف 800 روپے اور مقررہ شرح 2 ہزار 790 روپے ہے۔
نور عالم خان نے دونوں ذیلی کمیٹیوں کو ہدایت کی کہ وہ دو یا تین اجلاسوں کے بعد اپنے نتائج پیش کریں۔
انہوں نے کہا کہ وہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو قومی احتساب بیورو اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کی مدد سے یوریا بنانے والی کمپنیوں کا مکمل آڈٹ کرنے کی ہدایت کریں گے۔
خواجہ آصف کی کار اسمبلرز پر تنقید
دونوں ذیلی کمیٹیاں اس وقت تشکیل دی گئیں جب وزیر دفاع خواجہ آصف نے اجلاس میں کہا کہ حکومت ’طاقتور‘ کار اسمبلرز کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کار اسمبلرز فرسودہ ٹیکنالوجیز اپنے صارفین کو بیچ کر دولت کما رہے ہیں، چاہے گاڑیاں بنانے والے ہوں یا کھاد کی پیداوار والے، یہ کمپنیاں کارٹیلائزیشن کے ذریعے قیمتیں بڑھاتی ہیں’۔
خواجہ آصف نے کہا کہ یہ ستم ظریفی ہے کہ آٹوموبائل کمپنی کے سربراہ کے ساتھ ساتھ فرٹیلائزر کمپنی کے سربراہ ریگولیٹری اداروں کے رکن تھے۔
کمیٹی کے اراکین نے تسلیم کیا کہ اس کی کچھ ذمہ داری خود ان پر عائد ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے کار اسمبلنگ اور فرٹیلائزر پروڈکشن کے کاروبار کو ریگولیٹ کرنے کے لیے پالیسیاں نہیں بنائیں۔
خواجہ آصف نے اعتراف کیا کہ ’گاہک کا استحصال اپنے عروج پر ہے، میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں کہ پہلے صارفین کے مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا، انہوں نے تجویز پیش کی کہ اسمبلرز کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے جاپانی کاروں کی درآمد کی اجازت دی جائے۔
خیال رہے کہ بلائے جانے کے باوجود گاڑیاں تیار کرنے والی کسی کمپنی کے سربراہ نے پی اے سی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔