دنیا

کم عمری میں شادیوں کی تعداد میں بتدریج کمی آرہی ہے، یونیسیف

دنیا بھر میں جاری تنازعات کی وجہ سے کم عمری میں شادیوں میں اضافہ ہوسکتا ہے تاہم گزشتہ 10 برسوں میں کمی ہوئی ہے، رپورٹ

اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے نے کہا ہے کہ کم عمری میں شادیوں کی تعداد میں سست روی سے کمی آرہی ہے لیکن اس شرح کے تحت اگلے 300 برسوں میں بھی یہ مشق ختم نہیں ہوگی تاہم رجحان میں تبدیلی آسکتی ہے۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق کلاؤڈیا کیپا کی سربراہی میں تحریر کی گئی یونیسیف کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’ہم نے کم عمری میں شادیاں روکنے پر بہتری دکھائی ہے اور خاص طور پر گزشتہ 10 برسوں میں بہتری آئی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ پیش رفت کافی نہیں ہے‘۔

یونیسیف کے تخمینے کے مطابق اس وقت 64 کروڑ لڑکیاں اور خواتین 18 سال سے کم عمر میں شادیاں کر رہی ہیں، ایک اندازے کے مطابق ہر سال ایک کروڑ 20 لاکھ لڑکیاں کم عمری میں دلہن بن جاتی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ 25 برس سے زائد عرصے میں اس طرح کی شادیوں میں کمی آئی ہے، 1997 میں 20 سے 24 سال کی عمر کی 25 فیصد خواتین کی 18 سال سے کم عمر میں شادی ہوئی تھی تاہم 2012 تک یہ شرح گر کر 23 فیصد ہوئی اور 2022 میں 19 فیصد پر آگئی ہے۔

یونیسیف نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ 90 لاکھ لڑکیاں 2030 تک اسی طرح کی شادیاں کریں گی۔

کلاؤڈیا کیپا نے رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ ’موجودہ رفتار پر ہمیں کم عمری کی شادی کے خاتمے کے لیے ہوسکتا ہے 300 برس انتظار کرنا پڑے‘، ان شادیوں کی بڑی تعداد 12 سے 17 سال عمر کی لڑکیوں کی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس حوالے سے ہونے والی معمولی پیش رفت خطرے میں ہے اور یونیسیف کو خدشہ ہے کہ کووڈ-19 کے پھیلاؤ، عالمی تنازعات اور بڑھتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیش رفت پر الٹا اثر ہوسکتا ہے۔

اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ صرف کووڈ-19 کی وجہ سے ایک کروڑ کم عمری میں شادیاں 2020 سے 2030 کے دوران ہوسکتی ہیں۔

یونیسیف کے سربراہ کیتھرین رسل نے بیان میں کہا کہ دنیا بحران میں گھری ہوئی ہے، جس سے امیدیں اور مسائل کے شکار بچوں کے خواب ختم ہو رہے ہیں خاص طور پر لڑکیاں جنہوں دلہن کے بجائے طالبات ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بحرانوں سے خاندان سیکیورٹی کی غرض سے بچوں کی شادیوں پر مجبور ہوسکتے ہیں۔

یونیسیف کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گوکہ کم عمری میں شادہ بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے لیکن یہ عام طور پر دیکھا گیا ہے مالی، سماجی اور یہاں تک کہ جسمانی تحفظ فراہم کرنے کے لیے کہ لوگ لڑکیوں کے لیے حفاظتی اقدامات تلاش کرتے ہیں۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ جغرافیائی طور پر جنوبی ایشیا لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کا بنیادی محرک ہے تاہم خطے میں ابھی تقریباً 64 کروڑ میں سے 45 فیصد کم عمری کی شادیاں ہوتی ہیں، جس میں بھارت کا حصہ ایک تہائی ہے۔

یونیسف کو افریقی ممالک میں صورت حال سے زیادہ تشویش ہے جہاں اس رجحان میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں اس وقت لڑکیوں کو کم عمری میں شادیوں کے خطرات ہیں اور تین میں سے ایک 18 سال سے کم عمر میں شادی کرتی ہیں اور خدشہ ظاہر کیا کہ 2030 تک کم عمری میں شادی کی شرح میں 10 فیصد اضافہ ہوگا۔

وزیراعظم شہباز شریف برطانوی بادشاہ کی تاج پوشی کی تقریب میں شرکت کیلئے لندن پہنچ گئے

بلوچستان: کسٹمز انٹیلی جنس کی کارروائی، 39 کروڑ 20 لاکھ روپے مالیت کی کھاد اور چینی ضبط

یوکرین نے ڈرون حملہ کرکےصدر پیوٹن کو نشانہ بنانے کی کوشش کی، روس کا الزام