دنیا

بھارتی حکومت کا ملک بھر میں قائم 62 فوجی چھاؤنیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ

چھاؤنیوں کی تحلیل کے بعد فوجی علاقے ملٹری اسٹیشنز میں تبدیل جبکہ سویلین علاقے میونسپل حکام کے ماتحت آجائیں گے۔

بھارتی حکومت نے ملک بھر میں قائم 62 فوجی چھاؤنیوں (کنٹونمنٹس) کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اس سلسلے میں ریاست ہماچل پردیش میں قائم ’یول کنٹونمنٹ‘ کی تحلیل کا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا گیا۔

بھارتی نشریاتی ادارے ’ٹائمز آف انڈیا‘ کی رپورٹ کے مطابق منصوبے کے تحت چھاؤنیوں میں موجود فوجی علاقوں کو ’خصوصی فوجی اسٹیشنز‘ میں تبدیل کردیا جائے گا جس پر فوج کا خصوصی اختیار ہوگا، جبکہ سویلین علاقوں کو مقامی میونسپلٹی کے ساتھ ضم کردیا جائے گا جو اس کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات کی ذمہ دار ہوگی۔

بھارتی نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کی رپورٹ میں فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس اقدام سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو فائدہ پہنچے گا اور وہ شہری جو ریاستی حکومت کی فلاحی اسکیموں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے اب میونسپلٹی کے ذریعے اس سے مستفید ہوسکیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جہاں تک فوج کی بات ہے جو وہ بھی فوجی اسٹیشنز کی ترقی پر خصوصی توجہ دے سکے گی‘۔

تقسیم ہند کے وقت بھارت میں 56 چھاؤنیاں تھیں لیکن 1947 کے بعد اس میں مزید 6 چھاؤنیوں کا اضافہ کیا گیا جس میں آخری بار 1962 میں اجمیر میں چھاؤنی بنائی گئی تھی۔

ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ چھاؤنیاں ناقابل انتظام بن گئی تھیں اور فوجی اور شہری دونوں ہی اس سے خوش نہیں تھے اور ان کے درمیان ہمیشہ ایک جھگڑا رہتا، اس اقدام کے ذریعے ان چھاؤنیوں میں موجود سویلین علاقوں کی دیکھ بھال کے لیے سالانہ دفاعی بجٹ پر پڑنے والے دباؤ میں بھی کمی آئے گی۔

بھارتی وزارت دفاع ملک بھر میں 18 لاکھ ایکڑ اراضی کی مالک ہے جس میں 1.6 لاکھ ایکڑ 19 ریاستوں میں موجود 62 چھاؤنیوں پر مشتمل ہے۔

تقسیم ہند سے قبل ان چھاؤنیوں کو آبادیوں سے دور تعمیر کیا گیا تھا لیکن آبادی میں اضافے اور شہروں کے پھیلاؤ کے ساتھ یہ اب شہر کے اندر اہم پراپرٹیز ہیں۔

کنٹونمنٹ علاقوں میں رہنے والے شہری عمومی طور پر ریاستی حکومت کی فلاحی اسکیموں سے مستفید نہیں ہوپاتے کیونکہ ان فوجی علاقوں کو وزارت دفاع کا ڈیفنس اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، کنٹونمنٹ بورڈز کے ذریعے چلاتا ہے۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق چھاؤنیوں کی تحلیل کے بعد کنٹونمنٹ بورڈ کے ملازمین اور اثاثے شہری حکومت کے ماتحت آجائیں گے۔

ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ تمام چھاؤنیوں کے فوجی اسٹیشنز بننے کا امکان نہیں ہے کیوں کہ کچھ مقامات پر فوجی اور سویلین علاقے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ باہم مدغم ہیں جنہیں الگ نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے یہ بات دہلی اور لکھنؤ کی چھاؤنیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہی۔

فوجی ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ سویلین رہائشیوں اور ریاستی حکومتوں کا پرزور مطالبہ تھا کہ ان چھاؤنیوں کو تحلیل کردیا جائے۔

ایک عہدیدار نے کہا کہ چھاؤنیوں میں موجود سول علاقوں کی دیکھ بھال اور ترقی پر دفاعی بجٹ کی اچھی خاصی رقم خرچ ہوجاتی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان چھاؤنیوں میں سول علاقوں کے پھیلاؤ کی وجہ سے دفاعی اراضی پر دباؤ پڑ رہا تھا۔

ایک اور عسکری عہدیدار کا کہنا تھا کہ چھاؤنیاں سامراجی ڈھانچے ہیں اور ان اقدامات کے ذریعے فوجی اسٹیشنز کا بہتر انتظام کیا جاسکے گا۔