دنیا

سوڈان میں فوج کے درمیان لڑائی جاری، ایک لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور

مصر کے صدر نے کہا کہ فوج کے دو حریف گروپس کے درمیان مذاکرات کے لیے مدد کریں گے لیکن اندرونی معاملات میں مداخلت سے بھی گریز کیا جائے گا، رپورٹ

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ سوڈان میں جاری جنگ نے ایک لاکھ شہریوں کو نقل مکانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور تیسرے ہفتے میں داخل ہونے والی جنگ سے اب قحط کے خدشات پیدا ہونے لگے ہیں۔

غیر ملکی خبر ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق جنگ بندی کے ایک اور معاہدے کے باوجود بھی سوڈان کا دارالحکومت خرطوم زوردار دھماکوں کی آواز سے گونج اٹھا جہاں ایک لاکھ شہری اپنے علاقے چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

فوج اور پیرا ملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے درمیان 15 اپریل کو شروع ہونے والی لڑائی کے نتیجے میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

مصر کے صدر نے کہا کہ فوج کے دو حریف گروپس کے درمیان مذاکرات میں مدد کریں گے لیکن ملک کے اندرونی مسائل میں مداخلت کرنے سے بھی گریز کیا جائے گا۔

جاپان کے ایک نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے مصر کے صدر عبدالفتح السیسی نے خبردار کیا کہ اس جنگ سے پورا خطہ متاثر ہو سکتا ہے۔

ادھر اقوام متحدہ کے فنڈ چیف کا آج سوڈان کا دورہ متوقع تھا لیکن مقرر وقت کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا کہ وہ ملک کے محفوظ علاقوں میں اپنا کام دوبارہ شروع کرے گا کیونکہ اس سے قبل چند علاقوں میں گولہ باری کے نتیجے میں فوڈ پروگرام کے متعدد ملازمین ہلاک ہوگئے تھے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایسٹ افریقا کے ڈائریکٹر مائیکل ڈنفورڈ نے کہا کہ خطرہ یہ ہے کہ یہ جنگ صرف سوڈان میں بحران پیدا نہیں کرے گی بلکہ اس سے پورے خطے میں بحران پیدا ہونے جا رہا ہے۔

سوڈان میں اقتدار کے حصول کے لیے گزشتہ دو ہفتوں سے جاری کوششیں مہلک ترین تشدد میں تبدیل ہوگئی ہیں جہاں 2021 میں فوجی حکومت قائم کرنے والے فورسز کے2 جرنیلوں آرمی چیف عبدالفتح البرہان اور ان کے نائب طاقت ور پیراملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے کمانڈر محمد ہمدان دیگلو کے درمیان لڑائی جاری ہے۔

دونوں فوجی سربراہان نے جنگ میں نرمی کے لیے کوئی لچک نہیں دکھائی اور نہ ہی دونوں میں سے کوئی ایک کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے جس کی وجہ سے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ یہ جنگ طویل عرصے تک جاری رہنے کا امکان ہے۔

آج دارالحکومت خرطوم میں گولہ باری اور فضائی کارروائی کی وجہ سے سیاہ دھواں چھایا رہا۔

دونوں فریقین نے ایک دوسرے پر شہری علاقوں اور آبادی میں فضائی حملے اور گولہ باری کے الزامات عائد کیے ہیں۔

علاوہ ازیں دونوں فریقین نے ایک دوسرے کو جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

فوج نے دارالحکومت میں آر ایس ایف کے یونٹس پر فضائی طاقت کا استعمال کیا ہے جس کی وجہ سے مختلف علاقوں میں شدید نقصان ہوا ہے۔

ادھر کینیا کے وزیر خارجہ نے کہا کہ کینیا نے بین الاقوامی انسانی کوششوں کے پیش نظر جنوبی سوڈان کی سرحد کے قریب اپنے ہوائی اڈوں اور ہوائی پٹیوں کے استعمال کی پیش کش کی ہے۔

اقوام متحدہ کی امیگریشن ایجنسی نے کہا کہ جنگ سے سوڈان کی سرحد کے قریب 3 لاکھ 30 ہزار لوگ بے گھر ہوئے ہیں جبکہ ہزاروں سوڈانی ملک چھوڑنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا تھا کہ سوڈان میں عارضی طور پر رہنے والے مہاجرین سمیت 8 لاکھ افراد وہاں سے نکل سکتے ہیں۔

علاوہ ازیں گزشتہ دو ہفتوں میں 4 ہزار سے زائد لوگ سرحد پار کرکے مصر میں داخل ہو چکے ہیں جس کے لیے انہوں نے ہزاروں ڈالر ادا کیے ہیں۔

خیال رہے کہ سوڈان میں عمر البشیر 1989 میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار میں آئے تھے اور 2019 میں ہونے والی عوامی بغاوت میں ان کا تختہ الٹ دیا گیا، دو سال بعد آر ایس ایف کی حمایت سے جنرل عبدالفتاح البرہان کی قیادت میں فوج نے بغاوت کر کے اقتدار سنبھال لیا تھا۔

فوج اور آر ایس ایف کے رہنما جنرل محمد حمدان دیگلو کے درمیان موجودہ تنازع اس بات پر اختلافات کے باعث شروع ہوا کہ پلان کے مطابق سول حکمرانی کی بحالی کے تحت آر ایس ایف کو فوج میں کتنی جلدی ضم کیا جائے۔

دی ہیگ میں قائم عالمی فوجداری عدالت نے عمر البشیر اور علی ہارون پر 2003 اور 2004 میں دارفر میں شہریوں پر حملہ کرنے کے لیے ملیشیاز کو منظم کرنے کا الزام لگایا ہے، آئی سی سی نے عمر البشیر، علی ہارون اور حسین کی جیل سے منتقلی پر رد عمل دینے سے انکار کیا۔

اپریل میں مہنگائی بڑھ کر ریکارڈ 36.4 فیصد پر پہنچ گئی

افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کا رواں ہفتے دورہ پاکستان کا اعلان

پاکستانی سیاست اور مذاکرات کی کہانی