لاہور ہائیکورٹ کا عمران خان کو تمام مقدمات میں شامل تفتیش ہونے کا حکم
لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو تمام مقدمات میں شامل تفتیش ہونے کی ہدایت کر دی۔
عمران خان اور پی ٹی آئی رہنماؤں پر 121 مقدمات کے اندراج کے خلاف درخواست کی لاہور ہائی کورٹ میں سماعت جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کی جہاں عمران خان عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آپ کی درخواست پڑھی ہے، پٹیشن اچھی ڈرافٹ کی گئی ہے لیکن درخواست میں زیادہ تر پی ٹی آئی کی کارکردگی کے بارے میں لکھا ہے۔
جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ پٹیشن کے پیرا 7 سے آگے پڑھیں کیونکہ اس سے پیچھے تو آپ نے درخواست گزار کے بارے میں ہی بتایا ہے، کیا تمام 121 ایف آئی آرز میں عمران خان نامزد ہیں؟
عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ عدالت مجھے 15 منٹ کا وقت دے میں اپنا سارا کیس عدالت کے سامنے رکھ دیتا ہوں، حکومت طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے عمران خان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے، یہ کیس 71 سالہ شخص کا ہے جو پاکستانی شہری ہے، ہر روز ضمانت لینا پڑتی ہے جو ممکن نہیں ہے۔
جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ مقدمات کا اخراج چاہتے ہیں تو نکات کی نشاندہی کریں۔
عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ عمران خان پر وزیر آباد میں حملہ ہوا، ہر کیس میں پولیس مدعی بنتی ہے، 140 مقدمات ہیں پولیس بتائے کس میں عمران خان کی گرفتاری کی ضرورت ہے، کیسز ڈسچارج ہو رہے ہیں، کیسز کی کوالٹی تو اس سے ہی پتا چل جاتی ہے، ایک واقعے پر ایک سے زیادہ مقدمات درج کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ سب سیاسی بنیادوں پر ہو رہا ہے تاکہ الیکشن نہ ہوں اور مہم نہ چلائی جاسکے، ایک ایسا مقدمہ ہے جس میں 2500 افراد کے خلاف کیس بنایا گیا لیکن اس کیس میں صرف عمران خان نے ضمانت لی۔
جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ یہ سارا معاملہ ٹرائل کورٹ نے دیکھنا ہے، آپ سارے پراسس کو بائے پاس کیوں کر رہے ہیں۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ گرفتاری کے بعد پاکستان میں ایک روٹ لگا ہوا ہے، لاہور، کراچی، اسلام آباد اور پھر کوئٹہ، میں یہ روٹ ختم کرانا چاہتا ہوں۔
جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ بدقسمتی سے یہ روٹ پہلی بار نہیں لگا پہلے بھی لگتا تھا۔
جسٹس انوار الحق پنوں نے استفسار کیا کہ عمران خان کے خلاف کُل کتنے مقدمات درج ہیں، اس پر عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے مجموعی طور پر ابھی تک 25 مقدمات میں ضمانت لی ہے۔
جسٹس انوار الحق پنوں نے استفسار کیا کہ آپ عدالت سے چاہتے کیا ہیں، ادھر ادھر کے بجائے سیدھی بات کریں۔
جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کو سمن بھیجا گیا لیکن سمن کی تعمیل نہیں ہونے دی گئی، کیا رکاوٹ نہیں ڈالی گئی، سمن تعمیل کی راہ میں رکاوٹ کا ایک اور پرچہ ہو گیا، کیا وارنٹ کے تعمیل والے دن کوئی پولیس افسر زخمی نہیں ہوا، اس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ پولیس افسر زخمی ہوا ہوگا۔
جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ اگر پولیس افسر زخمی ہوا ہو گا تو اس بارے میں انویسٹی گیشن درکار ہے، انویسٹی گیشن افسر بتائے گا کہ کیا ہوا اس لیے انویسٹی گیشن ہونے دیں۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کو بطور سابق وزیر اعظم سیکیورٹی بھی نہیں دی گئی، کاغذوں میں عمران خان کو سیکیورٹی دے دی گئی ہے لیکن حقیقت میں نہیں ملی، عمران خان جھوٹے کیسز میں انصاف لینے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر روز عدالت آتے ہیں۔
جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ جب سے کیس لارجر بینچ کے سامنے لگا ہے کوئی نئی ایف آئی آر ہوئی ہے، اس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ نہیں اب کوئی نئی ایف آئی آر نہیں ہوئی، پولیس عدالت کو بتائے کتنے کیسز میں عمران خان کی گرفتاری ضروری ہے، تمام کیسز کو یکجا کر کے ایک کورٹ نامزد کی جاسکتی ہے اس سے سیکیورٹی کا مسئلہ ختم ہو سکتا ہے۔
جسٹس علی باقر نجفی نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ 71 سال تک کوئی کیس نہیں تھا حکومت بدلنے پر کیسز کیوں ہو رہے ہیں، وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں انتخابات سے دور رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
حکومت پنجاب کے وکیل نے کہا کہ یہ عدالت سے ایکسٹرا ریلیف چاہ رہے ہیں کیونکہ یہ وزیر اعظم رہے اور ورلڈ کپ جیتا، درخواست کے ذریعے سسٹم کو بائی پاس کیا جا رہا ہے۔
جسٹس انوار الحق پنوں نے ریمارکس دیے کہ پاکستان بننے کے بعد کتنے افراد کے خلاف حکومت نے کبھی 150 مقدمات درج کیے گئے ہیں، یہ کیا کر رہے ہیں آپ لوگ؟
جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ سزائے موت کے قیدی کے بھی بنیادی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے، یہ سپریم کورٹ کا بھی فیصلہ ہے۔
حکومت پنجاب کے وکیل نے کہا کہ آج کل عمران خان عدالت میں آتے ہیں ایک گملا بھی نہیں ٹوٹتا نہ ٹریفک بلاک ہوتا ہے، عمران خان نے ایک بھی کیس میں تفتیش جوائن نہیں کی۔
جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ ضمانت اسی لیے لی جاتی ہے تاکہ انویسٹی گیشن جوائن کی جائے، آپ کو سارے کیسز میں شامل تفتیش ہونا چاہیے، کہا گیا عید کی چھٹیوں میں آپریشن ہو گا کچھ نہیں ہوا، اس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ہم سارے کیسز میں شامل تفتیش ہونے کے لیے تیار ہیں۔
جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ آپ خود تک پولیس کو پہنچنے ہی نہیں دیتے اس لیے نئی ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔
عمران خان کی روسٹرم آمد
دوران سماعت عمران خان روسٹرم پر آگئے اور عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ دو، تین منٹ کا وقت دیں میں بات کرنا چاہتا ہوں۔
انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وزیر آباد میں مجھے قتل کرنے کی کوشش کی گئی، اس کی معلومات مجھے پہلے تھی، پھر اسلام آباد میں مجھے قتل کرنے کی کوشش کی گئی آئی ایس آئی نے رات کو بلڈنگ کو کور کیا ہوا تھا، آج میں آپ کو کہہ رہا ہوں انہوں نے مجھے پھر قتل کرنے کی کوشش کرنی ہے، یہ مجھے ختم کرنا چاہتے ہیں مارنا چاہ رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ڈرتے ہیں اگر دوبارہ میں آگیا تو ان کا احتساب کروں گا، مجھے کوئی سیکیورٹی نہیں ملی، میں کیسز سے بھاگ نہیں رہا۔
جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ آپ کو عدالت سے مطمئن رہنا چاہیے، اس پر عمران خان نے کہا کہ مجھے عدالتوں پر مکمل اعتماد ہے اسی لیے عدالت سے سامنے کھڑا ہوں، پولیس کو تفتیش کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی بس یہ بکتر بند گاڑیوں سے گیٹ نہ توڑیں۔
بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کو تمام مقدمات میں شامل تفتیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ جمعہ (5 مئی) کو 2 بجے عمران خان پولیس تفتیش جوائن کریں، حکومت پنجاب تفتیش مکمل کرکے 8 مئی تک مکمل رپورٹ جمع کرائے۔
واضح رہے کہ رواں ماہ 2 اپریل کو عمران خان کے خلاف درج مقدمات کے اخراج کے لیے دائر درخواست سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھی۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی درخواست میں وفاق، حکومت پنجاب، ایف آئی اے اور نیب سمیت دیگر کو فریق بناتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے، سیاسی بنیادوں پر ایک ہی نوعیت کے مقدمات درج کر کے ہراساں کیا جارہا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایک سو سے زائد کیسز درج کے اختیارات کا غیر قانونی استعمال کیا جا رہا ہے ، 121 جھوٹے مقدمات درج کر دیے گئے ہیں، یہ آئین کے آرٹیکل 4، 9، 15، 16 کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ ان تمام مقدمات کو خارج کرنے کا حکم دے، عدالت عالیہ عمران خان کے خلاف درج تمام مقدمات کا تفصیلی ریکارڈ طلب کرے اور کیس کے حتمی فیصلے تک درج مقدمات میں کارروائی سے روکا جائے۔
اس کے ساتھ ہی درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ کارروائی سے پہلے درخواست گزار کو نوٹس دے کر سننے کا موقع فراہم کرنے کا حکم دیا جائے اور عدالت گرفتار تمام سیاسی کارکنوں کو رہا کرنے کا حکم بھی دے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ کے آخر میں فواد چوہدری نے کہا تھا اس وقت تک عمران خان سمیت پی ٹی آئی کی سینیئر قیادت پر 143 مقدمات درج کیے گئے ہیں، مزید کہا کہ 21 مارچ تک 1060 افراد زیر حراست تھے جن کی فہرست ہم نے عدالت کو دے دی ہی جبکہ اب 11 سو افراد مزید گرفتار ہیں جن کی فہرست بھی اب دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے خلاف 29 مقدمات درج کیے گئے جن میں سے 15 مقدمات ایک دن میں درج کیے گئے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ یہ جو سارا کچھ ہو رہا ہے اس کا 90 فیصد پنجاب اور اسلام آباد میں ہو رہا ہے، ہم آئی جی پنجاب، آئی جی اسلام آباد اور متعلقہ افسران سمیت پنجاب کی کابینہ کے خلاف مقدمات درج کرانے جارہے ہیں۔