مسلم مخالف بولی وڈ فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ پر پابندی کا مطالبہ
بولی وڈ کی آنے والی فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کی کہانی کو خوفناک قرار دیتے ہوئے ہندو سیکولر سیاست دانوں اور سماجی رہنماؤں نے اس پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر فلم کو ریلیز کیا گیا تو فرقہ ورانہ فسادات بھڑک سکتے ہیں۔
’دی کیرالہ اسٹوری‘ کو 5 مئی کو بھارت بھر میں ریلیز کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، فلم کی کہانی سدیپتو سین نے لکھی ہے اور انہوں نے ہی اس کی ہدایات دی ہیں اور اسے 5 مئی کو ریلیز کیا جائے گا۔
فلم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بھارتی ریاست کیرالہ سے 32 ہزار نوجوان اور کم عمر لڑکیاں غائب ہوکر داعش میں شمولیت اختیار کر چکی ہیں جو بھارت، شام اور لیبیا سمیت دیگر ممالک میں دہشت گردی پھیلا رہی ہیں۔
فلم کے جاری کیے گئے ٹریلر سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ فلم کو خاص پروپیگنڈا کے تحت بنا کر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور دکھایا گیا ہے کہ مقامی علما ہی خواتین کو دین اسلام کی جانب راغب کرکے انہیں مسلمان بنا رہے ہیں۔
ٹریلر میں علما کو نوجوان مسلمانوں کو ہدایات دیتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے کہ کیرالہ کی نوجوان لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسائیں اور انہیں حاملہ کریں۔
فلم کے ٹریلر جاری کیے جانے کے بعد متعدد بھارتی سیاست دانوں اور سماجی رہنماؤں نے اس کی کہانی کو من گھڑت اور بھارت کی بدنامی قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی کا مطالبہ کردیا۔
’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق کانگریس کے رکن اسمبلی ششی تھرور نے ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کو من گھڑت اور بھارت کی بدنامی قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ فلم کی نمائش پر پابندی لگائی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ فلم میں غیر حقیقی دعوے کیے گئے ہیں اور دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ بھارتی خواتین دنیا بھر میں دہشت گردی پھیلا رہی ہیں، علاوہ ازیں فلم ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ثبوت ہے۔
ششی تھرور نے کہا کہ ’دی کیرالہ اسٹوری‘ بھارت کی حقیقی اسٹوری نہیں ہے، ریاست سے 32 ہزار خواتین نہ تو غائب ہوئیں اور نہ ہی ریاست میں ایسا کوئی ماحول ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم کا ٹریلر سامنے آنے کے بعد کیرالہ کے وزیر اعلیٰ نے بھی فلم کو نفرت انگیز اور فرقہ ورانہ فسادات کی سازش قرار دیتے ہوئے اس پر فوری پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔
’نئی دہلی ٹیلی وژن‘ (این ڈی ٹی وی) کے مطابق وزیر اعلیٰ نے فلم کو سنگھ پریوار ئعنی ہندو نسل اور انتپا پسند تنظیموں اور جماعتوں کا تسلسل قرار دیا اور کہا کہ ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کو پروپیگنڈا کے تحت بنایا گیا۔
وزیر اعلیٰ کے مطابق فلم کو کیرالہ کا امن خراب کرنے کے لیے بنایا گیا، اس میں بیان کیے گئے جھوٹے دعووں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاست کیرالہ بھارت کی پر امن ترین ریاستوں میں سے ایک ہے لیکن ’دی کیرالہ اسٹوری‘ سے وہاں فرقہ ورانہ فسادات کو بھڑکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اسی حوالے سے ’نیوز 18‘ نے بتایا کہ فلم کا ٹریلر جاری کیے جانے کے بعد ریاست کیرالہ کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جو فلم میں بتائی گئی 32 ہزار لاپتا خواتین سے متعلق معلومات فراہم کرے گا، اسے ایک کروڑ روپے انعام دیا جائے گا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومت اور ریاستی اداروں نے بھی ایسی کوئی رپورٹ نہیں دی کہ کیرالہ سے خواتین غائب ہو رہی ہیں، تاہم فلم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ریاست سے 32 ہزار لڑکیاں غائب ہوکر داعش کا حصہ بن چکیں جو مختلف ممالک میں دہشت گردی پھیلا رہی ہیں۔
’انڈیا ٹوڈے‘ نے بھی اپنی رپورٹ میں فلم میں پیش کیے گئے دعووں کو مسترد کیا اور بتایا کہ فلم، عالمی سطح پر بھارت کی بدنامی کا سبب بن سکتی ہے۔
’ٹائمز آف انڈیا‘ کے مطابق فلم کے ٹریلر کو ریلیز کیے جانے کے بعد کیرالہ کے وزیر اعلیٰ نے مرکزی حکومت سے اس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ فلم کو پروپیگنڈا کے تحت بنایا گیا ہے اور یہ ریاست کا امن خراب کرنے کی ناکام کوشش ہے۔
دوسری جانب فلم کا ٹریلر جاری ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی لوگ فلم کو فرقہ ورانہ فسادات کی سازش قرار دیتے ہوئے اسے مسلم مخالف قرار دیتے دکھائی دیے۔
سوشل میڈیا پر انتہا پسند ہندو تنظیموں کے ارکان نے فلم کو حقیقی کہانی قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف بھی سخت اور نفرت انگیز گفتگو کا استعمال کیا۔