’دہشت گردوں‘ اور قومی ادارے کمزور کرنے والوں سے مذاکرات نہیں ہوسکتے، جاوید لطیف
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور وفاقی وزیر جاوید لطیف نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور حکمران اتحاد کے درمیان مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’دہشت گردوں‘ اور قومی اداروں کو تباہ کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حالات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں تو اب مکمل سچ بولنا پڑے گا، اب کوئی بھی حکومت ہو صرف اس کا کام نہیں ہے بلکہ اداروں میں بیٹھے لوگوں کو سچ بولنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ حقائق یہ ہیں کہ جب دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت کیا تو طاقتور حلقوں کو لگا کہ ان کے خلاف کوئی اتحاد بن گیا ہے تو انہوں نے ایک پروجیکٹ لانچ کیا اور اس پروجیکٹ کے ناکام ہونے کے باوجود آج تک اس کو جس طرح بے نقاب نہیں ہونے دیا جا رہا، اس کی ناکامی کو قبول نہیں کیا جا رہا اور چھپایا جا رہا ہے اس کی کئی وجوہات ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو عمران خان نے اپنے اگلے 10 سے 15 سال کی منصوبہ بندی اداروں میں بیٹھے لوگوں کے ساتھ مل کر کی تھی اور ہر ایک کو جو حصہ دینا تھا، وہ حصہ وصول کرنے میں ناکامی دیکھتے ہوئے آج تک اس کو دوبارہ لانے کے لیے سہولت کاری ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حقائق یہ ہیں کہ ابھی چند روز پہلے بلوچستان میں وکلا کنونشن ہوا اور اس وکلا کنونشن میں سپریم کورٹ بار کے سابق صدر امان اللہ کرنئی نے جو انکشافات کیے، جو انکشافات جسٹس شوکت صدیقی کر چکے، جو انکشافات آڈیو کی شکل میں ثاقب نثار کے آرہے ہیں، جو انکشافات جنرل ریٹائرڈ قمر باجوہ کر رہے ہیں، جو انکشافات جنرل فیض، آصف سعید کھوسہ اور عمران خان بار بار جو اقرار جرم کر رہے ہیں وہ سب بتا رہے ہیں کہ ہر ایک کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
میاں جاوید لطیف نے کہا کہ کیا آج ہمارے ادارے اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ کچے کے علاقے میں آپریشن کریں تو کامیاب ہو جاتا ہے لیکن زمان پارک میں آپریشن کرتے ہیں تو ناکام ہو جاتا ہے، آپ ظہور الہٰی روڈ پر آپریشن کریں تو ناکام ہو جاتا ہے، آپ کچے کے علاقے میں راکٹ لانچر کا مقابلہ کر لیتے ہیں لیکن زمان پارک یا ظہور الہٰی روڈ پر پیٹرول بم اور غلیل کا مقابلہ نہیں کر سکتے، تو پھر بتایا جائے کہ اصل حقیقت ہے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت وقت کی ذمہ داری نہیں ہے، یہ اداروں میں بیٹھے لوگوں کی ذمہ داری ہے جنہوں نے یہ پروجیکٹ لانچ کیا تھا، یہ ان کی ذمہ داری ہے جن کے اداروں میں بیٹھے لوگوں کے حوالے سے انکشافات سامنے آرہے ہیں، یہ ان اداروں میں بیٹھے لوگوں کی ذمہ داری ہے جنہوں نے ان کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ آئین و قانون کا اطلاق ہونا چاہیے تھا تو آئین و قانون کا اطلاق مارچ اپریل 2023 میں ہی کیوں یاد آرہا ہے، یہ آئین قانون کا اطلاق 2015 سے 2017 تک تو یاد نہ آیا، جب پنجاب میں عدم اعتماد ہوا تو آئین کو ری رائٹ کرتے ہوئے تو یہ یاد نہ آیا اور کیا آج بھی آئین و قانون کا اطلاق صرف اور صرف 90 دن کے دوران الیکشن میں ہی ہے یا پاکستان کے اندر جو آوازیں اٹھ رہی ہیں، جو اداروں میں بیٹھے لوگوں کے حوالے سے اٹھ رہی ہیں، کیا ان پر آئین قانون حرکت میں نہیں آسکتا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے کھڑے ہیں لیکن ہمیں مزید مضبوطی سے کھڑا ہونا ہوگا اور کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، کبھی دہشت گردوں کے ونگ سے مذاکرات نہیں ہوتے، کبھی پیٹرول بم پھینکنے والوں سے مذاکرات نہیں ہوتے، کبھی عالمی قوتوں کے آلہ کار بننے والوں سے مذاکرات نہیں ہوتے، کبھی اداروں پر چڑھائی کر کے انہیں کمزور کرنے والوں سے مذاکرات نہیں ہوتے، کبھی میر جعفر، میر صادق کہنے والوں سے مذاکرات نہیں ہوتے، کبھی اداروں میں بیٹھے لوگوں کو ساتھ ملا کر پاکستان کے خلاف سازش کرنے والوں سے مذاکرات نہیں ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی ملک میں گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے، آج پاکستان کی معیشت آئی ایم ایف کے بغیر چلنا شروع ہوئی ہے اور پاکستان کے مقدمے کو بہتر طریقے سے پیش کر رہے ہیں تو اس وقت پھر اس انتشار پسند شخص سے کس بنیاد پر مذاکرات ہو رہے ہیں، کسی کی خواہش پر اس انتشار پسند اور دہشت گرد ٹولے سے مذاکرات ہوں گے تو پھر آپ پاکستان کے دفاع پر سمجھوتہ کریں گے، پاکستان کی ترقی پر سمجھوتہ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ ان مجرمان کو بے نقاب کر کے کٹہرے میں نہیں لا سکتے تو حکومت وقت میں جو صلاحیت ہے وہ پوری قوم جانتی ہے، مگر قوم یہ مطالبہ کرتی ہے کہ جن جن اداروں سے یہ سازش ہوتی تھی، جو جو لوگ کرتے تھے ان کو کٹہرے میں لائیں تاکہ پاکستان میں یہ انتشار کا شکار قوم متحد ہو سکے۔