کیا چین پاک-بھارت تعلقات بحال کروائے گا؟
آنے والے دنوں میں ایران اور سعودی عرب سفارتی تعلقات کی 7 سالہ معطلی کے بعد اپنے اپنے ملک میں ایک دوسرے کے سفارت خانے دوبارہ کھولیں گے جس سے مستقبل میں شام اور یمن کے حالات میں بہتری آنے کی امید پیدا ہوئی ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان کامیابی سے ثالثی کروانا عالمی سفارت کاری میں چین کا پہلا بڑا اقدام تھا۔ تو اب چین کی سفارتی کامیابی روس-یوکرین جنگ یا پاک-بھارت تعلقات کے حوالے سے کیا اشارہ دے سکتی ہے؟
گزشتہ ہفتے چین کے صدر شی جن پنگ نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ فون پر گفتگو کی جس کے دوران انہوں نے سیاسی بات چیت کے ذریعے جنگ کے خاتمے کے لیے چین کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس ٹیلیفونک گفتگو میں معنیٰ خیز تجاویز تو پیش نہیں کی گئیں لیکن اس سے قبل چین اپنے 12 نکاتی منصوبے میں امن مذاکرات، پابندیوں کے خاتمے اور جوہری ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرچکا ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات بحال کرنے میں چین کی کامیابی کے بعد اس بات کی امیدیں بڑھ چکی ہیں کہ یہ روس اور یوکرین کے معاملے میں اپنا کیا کردار ادا کرسکتا ہے۔ چین کی جناب سے یوریشین امور اور مذاکرات میں ثالثی کے لیے ایک خصوصی نمائندہ مقرر کرنے جیسے حالیہ اعلان کی وجہ سے اس طرح کی امیدوں کو مزید تقویت ملی ہے۔
تاہم روس اور یوکرین کے معاملے پر چین کا ثالث کے بجائے سہولت کار بننے کا زیادہ امکان ہے۔ چین اہم اسٹیک ہولڈرز کو مذاکرات کی میز پر تو لاسکتا ہے لیکن یوکرین سے روسی انخلا کے مطالبے پر اس کی ہچکچاہٹ کا مطلب یہی ہے کہ اسے ایک قابلِ اعتماد ثالث کے طور پر کام کرنے کے لیے پیوٹن کا حامی تصور کیا جاتا ہے۔
ثالث کے طور پر اپنی حیثیت کو منوانے کے لیے چین کو روس-یوکرین جنگ کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے اپنے محرکات تلاش کرنے ہوں گے۔ روس کے حوالے سے چین ایک سیاسی کھیل کھیل رہا ہے۔ وہ ماسکو کو اپنے جونیئر پارٹنر کے طور پر دکھانے کی کوشش کررہا ہے جو دنیا کو امریکا سے دور اور چین کے قریب کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
اگر روس، یوکرین کی مہم جوئی سے کمزور ہوجاتا ہے تو یہ ایک کارآمد پارٹنر ثابت نہیں ہوسکتا۔ دوسری جانب یوکرین کے حوالے سے چین اپنے اقتصادی مفادات کو محفوظ رکھنے کی امید بھی رکھتا ہے۔ چین یوکرین کا سب سے بڑا غیر ملکی تجارتی شراکت دار ہے اور اس کی بندرگاہوں اور شہری ٹرانسپورٹ سمیت یوکرین کے بنیادی ڈھانچے میں نمایاں سرمایہ کاری ہے۔
اس طرح کے سیاسی اور اقتصادی عوامل کی وجہ سے بھی مشرقِ وسطیٰ میں چین کے عمل دخل کو تقویت ملی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں ایک اہم کردار کے طور پر ابھر کر چین نے امریکا کی علاقائی مطابقت کو ختم کردیا ہے۔ امریکا کو کمزور کرنا ہی ممکنہ طور پر ایران کی سعودی عرب کے ساتھ دوبارہ تعلقات بحال کرنے کی خواہش کا بنیادی محرک تھا۔
ایران طویل عرصے سے چین اور روس کی قیادت میں ایک بڑے مغرب مخالف اتحاد کا مطالبہ کررہا ہے جس میں ایران اور دیگر علاقائی ممالک بھی شامل ہوں۔ دوسری جانب سعودی عرب نے اس معاہدے کو ایرانی پراکسیوں کی جانب سے اپنی نئی اقتصادی حکمتِ عملی کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو محدود کرنے کے لیے ایک موقع کے طور پر دیکھا ہے۔
تو اس سے چین کی جانب سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کے امکانات پر کیا اثر پڑے گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس سے ماضی میں عارضی طور پر چین نمٹ چکا ہے۔ 2018ء میں، اسلام آباد میں تعینات چینی سفارت کار نے بتایا تھا کہ چین، اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بھارتی حکام کے ساتھ بات چیت کررہا ہے۔
اسی سال چینی صدر شی جن پنگ نے شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام اراکین کے درمیان اتحاد قائم کرنے پر زور دیا تھا۔ لیکن چین اس معاملے کے حوالے سے کافی محتاط ہے۔ مثال کے طور پر 2017ء میں بیجنگ نے مسئلہ کشمیر کو اسلامی تعاون تنظیم میں اٹھانے کے پاکستانی فیصلے کی حمایت کرنے سے انکار کردیا تھا اور اس موقع پر اپنے موقف کو دہرایا تھا کہ مسئلہِ کشمیر ایک دوطرفہ معاملہ ہے۔
چین کی اس ہچکچاہٹ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ جنوبی ایشیا کی حد تک ہی ثالث کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ ہمارے خطے کے تنازعات میں چین بھی ایک براہ راست شریک ہوتا ہے۔ 2020ء میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر چین-ہندوستان کی جھڑپوں کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا جبکہ گزشتہ سال دسمبر میں بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان ایک سال سے زائد عرصے کے بعد ایک بار پھر جھڑپ ہوئی۔
سیاسی طور پر دیکھا جائے تو امریکا کے عالمی اثرورسوخ کو ختم کرنے کے لیے خطے کے اہم اسٹیک ہولڈرز میں بھی کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ پاکستان اب بھی سیاسی اور اقتصادی مدد کے لیے واشنگٹن کی جانب دیکھتا ہے، ایسا ہم نے حال ہی میں آئی ایم ایف پروگرام اور افغانستان میں خطرات سے نمٹنے کے لیے انسدادِ دہشتگردی کی حکمتِ عملی پر پاک-امریکا بات چیت کی صورت میں دیکھا۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے امریکا کے ساتھ اپنے اقتصادی مفادات بھی ہیں، اور یہ دونوں ممالک چین کے بڑھتے ہوئے عالمی اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کی حمایت کررہے ہیں۔
حالیہ برسوں میں علاقائی امن کی کوششوں کی وجہ بننے والے چین کے اپنے اقتصادی مفادات کچھ کمزور ہوئے ہیں۔ چین کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کروانے کا اصل وجہ سی پیک کے لیے بھارت کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ لیکن سی پیک پر کام کی رفتار اس وقت کم ہوچکی ہے کیونکہ پاکستان معاشی بحران اور قرضوں کے بوجھ میں جکڑا ہوا ہے۔
علاقائی اقتصادی شراکت اور وسیع رابطوں کے خواب بھی افغانستان میں پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے چکنا چور ہوچکے ہیں۔ لیکن چین نے تنازعات کم کرنے کے لیے معاشی شراکت کے اپنے نظریے کو درست ثابت کرنے کے لیے دوسرے خطے تلاش کرلیے ہیں۔ آئیے بہتری کی یہ امید کسی اور سے وابستہ کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کس طرح اس سے ہمارے خطے کو بھی فائدہ ہوگا۔
یہ مضمون یکم مئی 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری فری لانس صحافی ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس huma.yusuf@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔