پاکستان

کراچی میں مزدور مارچ کا انعقاد، شرکا کا تمام مزدوروں کیلئے مناسب اجرت، سماجی تحفظ کا مطالبہ

آج پاکستان کے حالات اس صورتحال سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں جس کا سامنا یکم مئی 1886 کو شکاگو میں مظاہرین نے کیا تھا، شرکا

عالمی یومِ مزدور کی مناسبت سے کراچی پریس کلب کے باہر متعدد تنظیموں کی جانب سے مزدور مارچ کا انعقاد کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق شرکا نے نعرے لگاتے ہوئے ان محنت کشوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا جو تمام چیلنجز اور مشکلات کے باوجود کام کرتے ہیں، انہوں نے کارخانوں اور گھروں میں کام کرنے والے مزدوروں، ان کی عزت، تحفظ اور بنیادی حقوق کے لیے مارچ کیا۔

ریلی کے شرکا کا کہنا تھا کہ سرکاری خدمات اور سرکاری اداروں کی نجکاری نے بنیادی سہولیات اور سماجی تحفظ کے منصوبوں تک پسماندہ طبقات کی رسائی پر بھی براہ راست اثر ڈالا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سبسڈی کے خاتمے، کارپوریشنز کے لیے بیل آؤٹ، کفایت شعاری کے اقدامات اور سماجی ترقی کے اخراجات میں کٹوتیوں نے خواتین، صنفی اقلیتوں اور دیگر غریب اور پسماندہ طبقات کی زندگیوں کو مزید قابل رحم بنا دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیداواری شعبوں میں ’سب-کنٹریکٹنگ‘ اور ’تھرڈ پارٹی کنٹریکٹنگ سسٹم‘ کم از کم اجرت، سماجی تحفظ، ہیلتھ انشورنس اور ملازمت کا تحفظ فراہم نہیں کرتا، علاوہ ازیں خواتین اور خاص طور پر صنفی اقلیتوں کو کم از کم اجرت اور معقول ملازمتوں سے محروم رکھا جاتا ہے۔

انہوں نے فیکٹریوں، کھیتوں یا گھروں میں کام کرنے ملازمین اور صفائی ستھرائی کرنے والوں کے لیے مناسب تنخواہ اور سماجی تحفظ کا مطالبہ کیا۔

ریلی میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی (جے اے سی)، تحریک نسواں، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر)، پیس اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن اور پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین (پی ٹی یو ڈی سی) نے شرکت کی۔

’پائلر‘ کی جانب سے ریلی میں شریک کرامت علی نے کہا کہ ’آج پاکستان کے حالات اس صورتحال سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں جس کا سامنا یکم مئی 1886 کو شکاگو میں مظاہرین نے کیا تھا، ہم آج بھی یہاں اسی کے لیے لڑ رہے ہیں اور ہماری خواتین ورکرز مردوں سے بھی بدتر حالات کا سامنا کر رہی ہیں‘۔

’پاکستان فشر فوک فورم‘ سے وابستہ فاطمہ مجید نے کہا کہ ’خواتین ورکرز مردوں کے برابر کام کرتی ہیں یا شاید اس سے بھی زیادہ کام کرتی ہیں لیکن پھر بھی انہیں برابر اجرت نہیں ملتی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم سب اجرت حاصل کرنے کے لیے ایمانداری سے سخت محنت کرتے ہیں لیکن یہاں جو خواتین اپنے گھر، اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ روزی کمانے کے لیے محنت مزدوری کرتی ہیں، ان کے ساتھ مساوی سلوک نہیں کیا جاتا، حالانکہ وہ دوگنی محنت کرنے پر زیادہ عزت کی مستحق ہیں، ہمیں ملک کی معیشت میں بھی ہمارے تعاون کی قدر اور اعتراف کی تلاش ہے‘۔

سماجی کارکن شیما کرمانی اور اظہر شان نے ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ترانہ گایا جو حقوق کے لیے کھڑے ہوئے اور انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

انہوں نے اُن مزدوروں کے حقوق کا مطالبہ کیا جو اپنے ملک کی خوشحالی کا پہیہ آگے بڑھا رہے ہیں لیکن ان کے اپنے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں۔

14 مئی کو اسمبلی کی تحلیل کا عمران خان کا مطالبہ ’ناقابل عمل‘ قرار

برطانوی شخص نے کمر پر فریج اُٹھا کر 24 گھنٹوں میں 3 بلند چوٹیاں سر کرلیں

شام کی صورتحال پر اردن میں عرب وزرائے خارجہ کا اجلاس