پاکستان

الیکشن کمیشن عہدیدار کا چیف الیکشن کمشنر کےخلاف سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے کا فیصلہ

فیصل آباد کے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر نے 'اختیارات کے ناجائز استعمال' کا الزام عائد کرتے ہوئے سکندر سلطان کے خلاف کونسل سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔

فیصل آباد میں ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دینے والے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایک عہدیدار نے ’انتظامی اختیارات کے ناجائز استعمال‘ پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہ سکندر سلطان راجا کو ہٹانے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن میں ’باہر کے لوگوں‘ کی حکمرانی اور متنازع ترقیوں پر برہم، ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر عرفان کوثر نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری عمر حامد خان سمیت اہم افسران کی تقرریوں کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سیکریٹری الیکشن کمیشن کو لکھے گئے متعدد خطوط میں اہلکار نے الیکشن کمیشن کے ایک اور افسر عدنان بشیر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل میں الیکشن کمیشن کے سربراہ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، عدنان بشیر نے چند ماہ قبل چیف الیکشن کمشنر کے خلاف جوڈیشل کونسل میں درخواست دائر کی تھی۔

چیف الیکشن کمشنر کی برطرفی کی وجوہات

صوبائی الیکشن کمشنر کے توسط سے سیکریٹری کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس میں ریئل اسٹیٹ اور پرائیویٹ کاروباروں میں مالی مفادات کے لیے غیر ضروری اثر و رسوخ کے استعمال ساتھ ساتھ بیوروکریٹس کے خاندان کے لیے منافع بخش پوسٹنگ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ دیگر الزامات میں مالی بحران کے دوران عوامی فنڈز کا خرچ، آئینی احکامات کی تعمیل میں ناکامی، انتظامی اختیارات کا غلط استعمال اور عام انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے چیف الیکشن کمشنر کے انتظامی ڈھانچے کو داغدار کرنا شامل ہے۔

اہلکار نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا اور ان کے ماتحت افراد کے اثاثہ جات، ڈپارٹمنٹل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی کے اجلاسوں کے منٹس اور مالی سال 23-2022 میں محکمہ تعمیرات عامہ کے لیے مختص کی گئی رقم کی تفصیلات بھی طلب کیں اور ترامیم کے ساتھ سروس رولز کی نقل اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے افسران کی سنیارٹی لسٹ بھی مانگی گئی ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری کو الگ الگ خطوط میں انہوں نے سیکریٹری عمر حامد خان (ریٹائرڈ وفاقی سیکریٹری)، اسپیشل سیکریٹری ظفر اقبال حسین (الیکشن کمیشن کے ریٹائرڈ افسر)، ایڈیشنل سیکریٹری (ہیومن ریسورس) خالد صدیق (ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم) کی تقرریوں کو چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ تقرریاں غیر قانونی طور پر کی گئی تھیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے عہدیدار نے صدر عارف علوی، اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ اور اراکین پارلیمنٹ کو بھی ایک خط لکھا جس میں سروس رولز کی عدم موجودگی میں الیکشن کمیشن میں مبینہ غیر قانونی تقرریوں کی طرف ان کی توجہ مبذول کروائی گئی۔

خط میں مزید کہا گیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہ کو سروس رولز کی عدم موجودگی میں کمیشن کی نگرانی کے بجائے صرف انتظامی اختیار حاصل ہے۔

خط میں پارلیمنٹ اور صدر سے مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ اب الیکشن کمیشن کا تنظیمی ڈھانچہ چیف الیکشن کمشنر کے رحم و کرم پر ہے جنہوں نے اپنے ریٹائرڈ ساتھیوں اور کلاس فیلوز کو اعلیٰ انتظامی عہدوں پر تعینات کیا اور مڈ کیریئر کے حامل الیکشن کیشن کے افسران کو من مانی طور پر ترقیاں دی جا رہی ہیں۔

’موٹر سائیکل کا مختلف استعمال سوار کی ذہانت کا ثبوت ہے‘

’آج کا دن فخر زمان کے نام‘، نیوزی لینڈ کےخلاف عمدہ اننگز پر اوپننگ بلے باز کو خراج تحسین

مردم شماری نئے تنازع کا شکار، حکومتِ سندھ نے بھی تحفظات کا اظہار کردیا