دنیا

شہروں کی گرمی سے خطرات کا شکار جنوبی ایشیائی خطہ اس سے نمٹنے کیلئے تیار نہیں، عالمی بینک

تیزی سے پھیلتے شہروں اور موسمیاتی تبدیلیاں اس خطے کی قبولیت کی حدوں کو مہلک نتائج کی طرف دھکیل رہی ہیں، رپورٹ

جنوبی ایشیا ان خطوں میں سے ایک ہے جہاں شدید گرمی کی وجہ سے سب سے زیادہ خطرہ ہے لیکن اس کے شہری علاقوں کی اکثریت اس رجحان سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تعداد، شدت اور پیچیدگی بڑھا رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بات عالمی بینک کی ایک نئی رپورٹ میں کہی گئی ہے جس میں کہا گیا کہ یہ خطہ جو دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کا گھر ہے شدید گرمی کا عادی ہے، لیکن تیزی سے پھیلتے شہروں اور موسمیاتی تبدیلیاں اس خطے کی قبولیت کی حدوں کو مہلک نتائج کی طرف دھکیل رہی ہیں۔

سال 2015 کی ہیٹ ویوز کے دوران بھارت اور پاکستان میں 3 ہزار 600 سے زیادہ اموات کے ساتھ جنوبی ایشیا میں گرمی کے اثرات پہلے ہی سامنے آچکے ہیں۔

حال ہی میں 2022 کے دوران بھارت اور پاکستان میں کم از کم ایک ارب لوگوں نے مزید ریکارڈ توڑ ہیٹ ویوز کا سامنا کیا اور پاکستان کے کچھ حصوں میں درجہ حرارت 51 ڈگری سیلسیس تک پہنچ گیا۔

’جنوبی ایشیا میں شہری گرمی: درجہ حرارت کو اپنانے میں لوگوں اور مقامات کو مربوط کرنا‘ کے عنوان سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گنجان آبادیوں کے ساتھ سبز اور نیلے رنگ کی جگہوں کی کمی نے جنوبی ایشیا میں بڑی تعداد میں کمیونٹیز کے لیے گرمی کے انتظام کے چیلنجز کو جنم دیا ہے۔

یہ ماحولیاتی عوامل اس بات پر غور کرتے ہوئے اہم تھے کہ گرمی سے موافقت پذیر اقدامات، جیسے کہ ایئر کنڈیشنگ کے ذریعے مکینیکل کولنگ، جنوبی ایشیا میں شاذ و نادر ہی قابل دسترس ہیں۔

بہت سی جنوبی ایشیائی کمیونٹیز میں بجلی کی غیر منظم فراہمی یا ناقابل دسترس ہونے کی وجہ سے ایئر کنڈیشنگ کا استعمال ناقابل عمل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان بھر میں بجلی کی طلب اکثر سپلائی سے زیادہ ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں روزانہ تین سے چار گھنٹے تک بلیک آؤٹ ہوتا ہے، یہ عوامل صرف کم آمدنی والی برادریوں تک محدود نہیں بلکہ خطے کی بہت سی شہری برادریوں تک پھیلے ہوئے تھے۔

جنوبی ایشیائی شہروں میں گرمی ایک بڑھتا ہوا خطرہ ہے جس کا اکثر اندازہ نہیں لگایا جاتا اور کم رپورٹ کیا جاتا ہے، آب و ہوا کے بہت سے دیگر خطرات کے برعکس، شہری گرمی ایک نسبتاً متوقع خطرہ ہے جس کی بڑے پیمانے پر پیمائش اور اس سے حفاظت کی جاسکتی ہے۔

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ جنوبی ایشیا میں شہری درجہ حرارت کا علم زیادہ تر سیٹیلائٹ ڈیٹا یا مطالعات تک محدود ہے جس میں مقامی تغیرات کا کوئی حساب نہیں، جس نے جنوبی ایشیائی شہروں میں انٹرا اربن گرمی کے فرق کے بارے میں آگاہی اور سمجھ کو محدود کر دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیائی شہروں کو ترقی یافتہ معیشتوں کے برعکس منفرد چیلنجز، مسابقتی تقاضوں اور وسائل کی رکاوٹوں کا سامنا ہے لیکن پھر بھی خطے کے باہر سے اچھے طریقوں اور ممکنہ گرمی کے انتظام میں بہتری کو سمجھنے کے لیے سبق سیکھا جا سکتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ شہری علاقوں میں اکثر دیہی علاقوں کے مقابلے زیادہ شمسی تابکاری جذب کر کے زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ ایک ایسا رجحان ہے جسے اربن ہیٹ آئی لینڈ (یو ایچ آئی) اثر کہا جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2017-1950 کے درمیان دنیا کی 60 فیصد شہری آبادی نے عالمی اوسط سے دو گنا زیادہ گرمی کا تجربہ کیا اور 2100 تک دنیا کے 25 فیصد بڑے شہر 7 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم ہو سکتے ہیں۔

رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ گرمی کے انتظام کی مستقبل کی کوششوں کو سماجی اور مقامی دونوں طرح کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ڈیزائن کیا جانا چاہیے۔

لکی مروت: دہشت گرد حملوں کے ردعمل میں شہریوں کی امن ریلی

چین کا اکیلی خواتین کو مصنوعی طریقے سے ماں بننے کی اجازت دینے پر غور

وکلا کو کسی خاص طبقے کے بجائے آئین کے ساتھ کھڑا ہونے کا مشورہ