خوراک، توانائی کی بلند قیمتوں کے سبب مہنگائی کی شرح 38 فیصد پر پہنچنے کا خدشہ
حکومت کو توقع ہے کہ آنے والے مہینوں میں افراط زر بلند رہے گی اور خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے یہ اپریل میں 38 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ سکتی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ نے ہفتہ کو جاری کردہ اپنی ماہانہ اقتصادی اپ ڈیٹ اور آؤٹ لک میں کہا کہ ’اپریل کے لیے افراط زر 36-38 فیصد کی حد میں رہنے کی توقع ہے‘۔
سینسیٹیو پرائس انڈیکس (ایس پی آئی) کے ذریعے پیمائش کردہ قلیل مدتی افراط زر گزشتہ ہفتے 46.8 فیصد تھی، جو کہ ایک ہفتہ قبل ریکارڈ 47.2 فیصد سے معمولی سی کم ہے۔
کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کے ذریعہ پیمائش کردہ ماہانہ افراط زر مارچ میں 35.4 فیصد تھی جو کہ ریکارڈ پر سب سے بلند ترین تھی۔
وزارت نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی اور زیر انتظام قیمتوں میں اضافے نے مجموعی قیمتوں میں اضافے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس نے کہا کہ ’اگرچہ عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں کمی کا رجحان ظاہر ہو رہا ہے لیکن وہ اب بھی وبائی امراض سے پہلے کی سطح کے مقابلے میں بلندی کی سطح پر ہیں‘۔
آؤٹ لک میں کہا گیا کہ سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے سست بحالی کی وجہ سے ضروری فصلوں کی فراہمی مقامی ضروریات سے کم رہی جس کے نتیجے میں مہنگائی میں شدت آئی۔
مزید کہا گیا کہ دوسری جانب مرکزی بینک تخفیفی مالیاتی پالیسی نافذ کر رہا ہے لیکن افراط زر کی پیش گوئی نیچے نہیں آرہی۔
وزارت نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ضروری اشیا کی طلب اور رسد کے فرق کی نگرانی اور ’مہنگائی کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کر رہی ہیں‘۔
حکومت نے صوبائی چیف سیکریٹریز کے ساتھ قیمتوں کی نگرانی کے لیے وزیر منصوبہ بندی کی سربراہی میں قومی قیمتوں کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کی تشکیل نو کی تھی، تاہم کمیٹی نے گزشتہ ایک سال میں صرف ایک دو اجلاس منعقد کیے ۔
وزارت نے آؤٹ لک میں کہا کہ زراعت میں اس سال خریف کی فصلوں کے لیے بیج، زرعی قرضہ اور کھاد سے متعلق معلومات کی دستیابی تسلی بخش رہے گی۔
تاہم ہو سکتا ہے کہ موسمی حالات سازگار نہ رہیں کیونکہ آئندہ 3 ماہ،اپریل سے جون تک اوسط سے زائد بارشیں ہونے کی توقع ہے۔
وزارت نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کو اب بھی اہم چیلنجز کا سامنا ہے، جس کی خصوصیت بلند افراط زر اور سست اقتصادی سرگرمی ہے۔
اس کے علاوہ، آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل سے زیادہ سرمائے کی آمد کو راغب کرنے، شرح مبادلہ کو مزید مستحکم کرنے اور افراط زر کے دباؤ کو کم کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔