نقطہ نظر

’پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے اور ارکان اس بات پر کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں‘

یوں محسوس ہوتا ہے کہ مارشل لا، سیاسی سرکشی، ٹانگ کھینچو پروگرام، سیاسی ریشہ دوانیوں کے بعد آئینی اور ریاستی ادارہ جات نے اپنی وسعت کا فیصلہ کر رکھا ہے۔

’کیا پاکستان کے سیاسی و معاشی حالات کبھی ایسے بھی ہوں گے کہ معاملات پر گہری تشویش نہ ہو اور ملک نازک حالات سے باہر نکل سکے‘؟ یہ سوال واشنگٹن پوسٹ کی خاتون صحافی پامیلا کانسٹیبل نے مجھ سے 1997ء میں پہلی ملاقات میں پوچھا تھا۔

میں نے اس کو جواب دیا کہ جس دن تمہارا ملک ہمیں ہماری راہ پر چلنے دے گا یہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ پامیلا کانسٹیبل نے مسکرا کر مجھے کہا کہ خواہشات کی بھی ایک حد ہوتی ہے میں دعا گو ہوں۔ 26 برس بعد میں جب یہ سطور تحریر کررہا ہوں تو مجھے احساس ہوا کہ سیاسی اور معاشی معاملات تو اپنی جگہ مگر اس وقت یہ محسوس ہورہا ہے کہ اس صورت حال سے بڑھ کر ایک دوسری صورت حال پیدا ہو چکی ہے جس پر ہم غور ہی نہیں کررہے۔

پاکستان کے دستور کو 50 برس مکمل ہوگئے مگر ابھی تک ریاست کے تینوں ستونوں کے درمیان ہلکی پھلکی موسیقی کی آواز عام شہریوں کو سننے کو نہ مل سکی تھی اور اب یہ کشمکش، ہیجانی کیفیت، کھینچاؤ اور جنگ کے سیاہ بادل ملک کی ہلکی پھلکی روشنی کو مہیب اندھیروں کی طرف لے جاچکی ہے۔ گویا ریاستی ستونوں کے درمیان قوت اقتدار و حکمرانی کی جنگ اختیارات کے از سر نو تعین کی جنگ میں تبدیل ہوگئی ہے۔

ہمارا دستور ریاست کے 3 ستون متعین کرچکا ہے۔ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ، بھٹو صاحب کے دور اقتدار میں یک طرفہ ترجیحات ہوتی رہیں۔ اپوزیشن کے بعض ارکان کو سارجنٹ ایٹ آرمز کے ذریعے اٹھا کر اسمبلی ہال سے باہر پھینک دیا گیا ایسے میں ریاستی ادارے کس طرح اختیارات کا تعین کر سکتے تھے؟ دستوری طور پر ملک آج کی طرح بند گلی میں چلاگیا۔ انتخابی نتائج تسلیم نہ ہوئے اور نہ ہی ہو نے تھے۔ ہڑتال، احتجاج، گرفتاریاں، جیل بھرو تحریک نہ جانے کیا کیا ہوا پھر آج کی طرح مذاکرات ہوئے۔ کہتے ہیں کامیاب ہوگئے تھے مگر زعم بھی تو کچھ نہ کچھ اثر دکھاتا ہے حالات کو ایک خاص سمت میں لے جایا جارہا تھا۔

بالآخر وہ منزل آگئی اور قوم کو 11 برسوں پر محیط مارشل لا بھگتنا پڑا پھر صورت حال ایسی تھی کہ راستہ روکنا ضروری تھا۔ آئین کی پاس داری اور بالادستی کس کو قبول تھی۔ فاتح جلال آباد نے اپنا ادارہ جاتی کھیل کھیلا مگر 11 برس عدالتیں انصاف نہیں فیصلہ کرتی تھیں اور محکوم قوم ان پر سر تسلیم خم کرلیا کرتی تھی۔ کہیں کہیں احتجاج ہوا کرتا تھا مگر بے دم اور غیر موثر، ایسے میں جب زندگی تنگ ہو چکی ہو، سانس ہی لینا بڑا محال ہو تا ہے، کھلی فضا کون مانگتا ہے۔ 1988ء سے 1997ء تک اقتدار کے اندھیروں اور روشن ڈرائنگ رومز میں صرف سازشیں ہوتی تھیں اور ہر کوئی اس میں اپنے مفاد کے مطابق حصہ ڈالتا تھا۔ 1999ء میں ایک بار پھر غلام گردشوں اور برسر اقتدار حلقوں نے خوب کھیل کھیلا اور 2007ء تک مارشل لا لگ گیا۔

2002ء میں اسمبلی بھی بنی قانون سازی بھی ہوئی یہ کام 1985ء میں بھی ہوا تھا مگر آئین پارلیمانی کی بجائے عملی طور پر صدارتی بن چکا تھا۔ دستور موم کی گڑیا کی ناک کی طرح جس طرح چاہیں موڑا جاسکتا تھا۔ 2006ء میں بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف نے بیرون ملک رہتے ہوئے صورت حال کو بہتر بنانے اور دستوری خاکے کو ازسر نو درست کر نے کے لیے ایک معاہدہ طے کیا اور پھر 10 برس اطمینان کے ساتھ گزارے، مگر ماسوائے ایک غیر سیاسی قوت کے کسی نے قوت اقتدار کے لیے اپنی حیثیت کو وسعت دینے کی کوشش نہ کی۔

وہ جو وسعت کو بڑھانا چاہتے تھے ان کے پلان میں ایک ناتجربہ کار، غیر سنجیدہ، متلون مزاج، آداب سے عاری شخص ملک کا وزیر اعظم بنا رہا کیونکہ بین الاقوامی سطح پر ہمارے بعض معاملات پر شدید تنقید ہورہی تھی، زرمبادلہ کی کمی اور نہ تجربہ کاری، ڈھٹائی، فیصلہ سازی کی صلاحیت سے عاری شخص نے ایسے ایسے فیصلے کیے کہ ملک آج عدم استحکام کا شکار ہے اور ہر دن مشکل ہو تا چلا جارہا ہے۔

موصوف نے ایک منصوبے کے تحت تباہی و بر بادی ہی نہیں کی بلکہ سیاست میں اخلاق اور شائستگی کا بھی جنازہ نکال کر ایسی مشکلات پیدا کر دیں کہ سیاسی انتشار تو ہوا ساتھ آئین کی خلاف ورزی بھی معمول بن گئی۔ ایک خاص طبقہ اور اس کی بہت بڑی اکثریت جو اپنے گھر سے بھی ووٹ حاصل نہ کرسکتے تھے اربوں روپے کے ساتھ چلائے جانے والے پروپیگنڈے اور منفی پروپیگنڈے کی بنیاد پر اب خود ساختہ پاپولر لیڈر ہیں جن کے پاس اپنی کارکردگی بتانے کے لیے کچھ نہیں۔ حالات بتاتے ہیں انتظامیہ کو مفلوج کر دیا گیا، ججوں کی حمایت حاصل کرلی گئی، میڈیا پر خرچ شروع ہوا گویا سیاسی میدان میں جنگ و جدل اور شاطرانہ چالوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔

ملک کی معاشی صورت حال کے ابتر ہونے، سیاسی انتشار بڑھنے کے ساتھ ساتھ دستور پاکستان سے بھی اپنے اپنے لیے راہ نکالنے کی کوشش کی گئی، نتیجہ یہ نکلا کہ ججوں کے نام سن کر فیصلے کا علم مقدمہ شروع ہونے سے قبل ہی ہو جاتا تھا اور اب اب بھی ہوتا ہے۔ سر کشی ذرا مزید بڑھی تومعلوم ہوا ججوں کی تعیناتی بھی فوجی قیادت انصاف کی اعلیٰ مثال قائم کروانے کے لیے کرواتی تھی اور یوں گروپ بندی زور پکڑگئی۔ گویا عدالت کے اندر بھی جنگ اور تصادم اور زیر سماعت بھی جنگ اور تصادم تھا۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ مارشل لا، سیاسی سرکشی، ٹانگ کھینچو پروگرام، سیاسی ریشہ دوانیوں کے بعد آئینی اور ریاستی ادارہ جات نے اپنی وسعت کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ پارلیمنٹ بتارہی ہے اور چیخ چیخ کر بتارہی ہے کہ ہم بالادست ہیں اور ہمارے کام میں مداخلت نہ کی جائے۔ انتظامیہ اپنی حدود کی وضاحت صراحت کے ساتھ کررہی ہے اور عدلیہ کبھی سب فریقین کو سن کر اور کبھی از خود نصیبوں کے فیصلے کررہی ہے۔ سوال کیا جاتا ہے کہ یہ سپریم کورٹ اور دیگر 2 ستونوں کے اختیارات کی جنگ ہے یا چند ججوں اور مقننہ و انتظامیہ کے درمیان کھینچا تانی ہے؟ بہ ہر حال جو کچھ بھی ہے قوم صورت حال سے واقف ہے۔

جب بعض جج صاحبان سیاسی مذاکرات کا حکم دیں یا فرمائش کریں تو ہمیں یہ بھی نظر آیا کہ ’چوروں ڈاکوؤں‘ کے ساتھ ’صادق و امین‘ کی ٹیم مذاکرات کرنے خود چل کر پہنچ گئی ہے۔ بہ ظاہر یہ سپریم کورٹ کے ارشاد کے مطابق ہے مگر بعض احباب جانتے ہیں کہ عمران خان صاحب کے عزیز واقارب، دوست ساتھی گزشتہ 6 ہفتوں سے اس بات کی سرتوڑ کوشش کررہے تھے کہ کسی طرح مذاکرات کا راستہ کھل جائے۔

یہ کوشش 4، 5 ماہ پہلے بھی کی گئی تھی مگر قول و فعل کا تضاد بہت زیادہ تھا۔ شرائط کے ساتھ سیاسی مذاکرات وہ بھی ڈھلتے سورج کی شعاعوں میں رنگ نہیں جماتے۔ اب کھیل تو ہاتھ سے نکل گیا۔ حکومت کی بنائی بند گلی کے آخری کونے میں مذکرات کی میز سج چکی ہے مگر بند گلی بہت لمی ہے اور ناقدین بھی کچھ کم نہیں۔ آئینی ترمیم کی بات کررہے ہیں گویا گھی اور شکر دونوں چاہیے۔ پہلے مستعفی ارکان کی غیر قانونی واپسی کا بوجھ اسپیکر اٹھائے، پھر آئینی ترمیم ہو حالانکہ آرٹیکل 254 بہت سارے مسائل کا حل ہے پھر ان کی مرضی کا نگران سیٹ اپ ہو۔ تاریخ ان کی مرضی کی ہو، الیکشن کمیشن بھی ان کے رحم و کرم پر ہو، تنقید بھی حکومت سنے، ڈاکو بھی وہی رہے، چو ر بھی حکومتی ہوں اور بعض ازاں حلقہ بندیاں بھی آپ کی مرضی کی گویا سکے کی وہ سائیڈ اوپر ہو جو میری ہو۔

ایسے میں جبکہ 90 دن گزر چکے یہ مطالبہ بھی آیا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کو بھی بحال کریں، جانے کسی اور کو ایسی شرائط پسند ہوں کہ نہ ہوں مگر مولانا فضل الرحمٰن تو ہر صورت عمران خان کے حامی ہوں گے۔اب تک یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے اور اس کے ارکان اس بات پر کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں چاہے کچھ بھی ہو جائے۔

عظیم چوہدری

عظیم چوہدری سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ کا ای میل ایڈریس ہے ma.chaudhary@hotmail.com اور آپ ٹوئٹر پر یہاں MAzeemChaudhary@ ان سے رابطہ کرسکتے ہیں

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔