دنیا

رشی سوناک کا غلاموں کی تجارت میں برطانیہ کے کردار پر معافی مانگنے سے انکار

ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں ہر طرح کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں، برطانوی وزیر اعظم

برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک نے ماضی میں غلاموں کی تجارت میں برطانیہ کے کردار پر معافی مانگنے یا معاوضہ ادا کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’تاریخ پر نکتہ چینی کی کوشش کرنا آگے بڑھنے کا صحیح راستہ نہیں ہے‘۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رشی سوناک سے گزشتہ روز ہاؤس آف کامنز میں لیبر رکن پارلیمنٹ بیل ریبیریو-ایڈی نے سوال کیا، انہوں نے کہا کہ آنجہانی رکن پارلیمنٹ برنی گرانٹ نے 23 سال قبل حکومت سے اس معاملے پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد سے متعدد سابق سربراہان مملکت اور وزیر اعظم دکھ یا گہرے افسوس کا اظہار کر چکے ہیں۔

لیبر رکن پارلیمنٹ نے رشی سوناک سے کہا کہ ’غلامی اور استعماریت میں ہمارے ملک کے کردار پر مکمل اور بامعنی معافی مانگیں اور انصاف کا عہد کریں‘۔

جواب میں رشی سوناک نے کہا کہ ’نہیں، ہمیں یقیناً اپنی تاریخ اور اس کے تمام حصوں کو سمجھنا چاہیے، اُس سے بھاگنا نہیں چاہیے لیکن میرے خیال میں اب ہماری توجہ اس پر مرکوز ہونی چاہیے کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں ہر طرح کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ وہ چیز ہے جسے ہم برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہیں اور اس کے لیے کوشش کرتے رہیں گے لیکن اپنی تاریخ پر نکتہ چینی کی کوشش کرنا آگے بڑھنے کا صحیح راستہ نہیں ہے اور یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر ہم اپنی توانائیاں مرکوز رکھیں‘۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ماضی میں لاکھوں افریقیوں کو غلام بنایا گیا اور کیریبین اور امریکا میں خاص طور پر شجرکاری کے کاموں پر مجبور کیا گیا، دیگر یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ بادشاہتیں اور حکومتیں غلاموں کی تجارت میں حصہ لیتی رہیں۔

رواں برس کیریبین رہنماؤں، غلاموں کے مالکان کی اولادوں اور سماجی کارکنان نے حکومت پر اس عمل کی تلافی کی تحریک میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈالا۔

ہاؤس آف کامنز میں گفتگو کرتے ہوئے بیل ریبیریو-ایڈی نے کہا کہ ’جمع کی گئی دولت یا اس حقیقت کا کوئی اعتراف نہیں کیا گیا کہ ہمارے ملک نے غلاموں کو نہیں بلکہ غلاموں کے مالکان کو ادا کرنے کے لیے سب سے بڑا قرض لیا‘۔

2007 میں غلاموں کی تجارت کے خاتمے کی 200 ویں سالگرہ کے موقع پر بات کرتے ہوئے سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے کہا تھا کہ ’میں نے کہا ہے کہ ہم اس پر معذرت خواہ ہیں اور میں یہ دوبارہ کہتا ہوں‘۔

دریں اثنا لیبر پارٹی کے ترجمان نے کہا ہے کہ بیل ربیرو-اڈی کا مطالبہ پارٹی کی پالیسی نہیں ہے، وہ غلاموں کی تجارت کی خوفناک تاریخ کو اجاگر کرنے میں حق بجانب ہیں، لیکن معاوضے کا مخصوص نقطہ لیبر پارٹی کی پالیسی نہیں ہے۔

قبل ازیں بکنگھم پیلس نے اعلان کیا تھا کہ ماہرین تعلیم کو شاہی آرکائیوز تک مزید رسائی فراہم کی جائے گی، کنگ چارلس سوئم نے اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔

چارلس کے 17 ویں صدی کے پیشرو کنگ جیمز دوم ’رائل افریقن کمپنی‘ میں سب سے بڑے سرمایہ کار تھے، جو ٹرانس اٹلانٹک غلاموں کی تجارت کا ظالمانہ علمبردار بن گئی۔

گزشتہ برس چارلس نے دولت مشترکہ کے رہنماؤں کے ایک اجلاس میں کہا تھا کہ ’ہمارے مشترکہ مستقبل کے لیے ہمیں ان غلطیوں کو بھی تسلیم کرنا چاہیے جنہوں نے ہمارے ماضی کو ترتیب دیا‘۔

لیکن اس وقت شاہی خاندان کی جانب سے نقل و حمل اور منافع کے لیے لوگوں کی فروخت میں ملوث ہونے پر کوئی معافی نہیں مانگی گئی۔

گزشتہ ماہ لیبر رکن پارلیمنٹ کلائیو لیوس اور ڈان بٹلر نے رشی سوناک کی زیر قیادت حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ برطانیہ کی سابق کیریبین کالونیوں کے ساتھ بامعنی مذاکرات کریں اور غلامی کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے انہیں معاوضہ ادا کریں۔

خیرپور: کراچی ایکسپریس کی بوگی میں آتشزدگی، خاتون اور بچوں سمیت 7 افراد جاں بحق

بچوں میں ڈاؤن سنڈروم کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کیلئے خصوصی باربی گڑیا متعارف

چین پاکستان کے ساتھ فوجی تعلقات میں وسعت کا خواہاں