سیاستدانوں کو مذاکرات پر مجبور کرنے کا اختیار کسی ادارے کو حاصل نہیں، انسانی حقوق کمیشن
چیئرپرسن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) حنا جیلانی نے کہا ہے کہ کسی ادارے کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ سیاستدانوں کو مذاکرات پر مجبور کرے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حنا جیلانی نے یہ تبصرہ گزشتہ روز ہیومن رائٹس کمیشن کی ’2022 میں انسانی حقوق کی صورتحال‘ کے عنوان سے رپورٹ کی تقریبِ رونمائی کے دوران صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کیا۔
مذکورہ رپورٹ میں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں میں اضافے کا ذکر کیا گیا ہے، جس کے مطابق اس حوالے سے رپورٹ کیے گئے حل طلب کیسزز کی تعداد 2 ہزار 210 ہوچکی ہے حالانکہ جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے والا بل قومی اسمبلی سے منظور کیا جا چکا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن کے شریک چیئرپرسن اسد اقبال بٹ کے مطابق یہ مسئلہ صوبوں کے درمیان اختلافات اور ملک کو تاریک راہ پر دھکیلنے کی وجہ بنتا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’لوگوں کو بغیر وارنٹ گرفتار کیا جا رہا ہے اور وہ مہینوں اور برسوں سے لاپتا ہیں، ایسے کیسز بھی ہیں جن میں لوگ 15 برس سے لاپتا ہیں، جب کوئی ادارہ آئین کا احترام نہیں کرے گا تو کیا وہ عوام سے آئین کا احترام کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توقع کر سکتا ہے؟‘
مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذہب یا عقیدے کی آزادی کو لاحق خطرات میں اضافہ سنگین تشویش باعث ہے، توہین مذہب کے الزامات پر پولیس رپورٹس کی تعداد میں کمی آئی ہے تاہم ہجوم کے ہاتھوں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، خواتین کے خلاف تشدد بلا روک ٹوک جاری رہا، ریپ اور گینگ ریپ کے کم از کم 4 ہزار 226 واقعات میں مجرموں کو سزا سنائے جانے کی شرح انتہائی کم ہے، مزید براں ٹرانس جینڈرز کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
مزدوروں کے حقوق کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کو بری طرح نظر انداز کیا گیا، کم از کم اجرت میں اضافہ ضرور کیا گیا ہے لیکن ریاست نے ابھی تک یہ تسلیم نہیں کیا ہے کہ یہ بھی ناکافی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر ملک میں سیاست، قانون اور حکمرانی کے حوالے سے عوامی مفاد کے مطابق حکمت عملی اختیار کرنی ہے تو ان تمام مسائل پر ریاست کی جانب سے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن کے خزانچی حسین نقی نے کہا کہ گزشتہ سال 4 ہزار لڑکیوں کا ریپ کیا گیا اور ان میں سب سے چھوٹی بچی نوزائیدہ تھی اور ان میں 6 ماہ کی بچیاں بھی شامل تھیں، علاوہ ازیں تیزاب پھینکنے اور کارو کاری کے کئی واقعات بھی ہوئے۔
اپنی تقریر میں حنا جیلانی نے خیبرپختونخوا میں عسکریت پسندوں کی آباد کاری پر بھی تنقید کی اور انہیں دہشت گرد حملوں میں حالیہ اضافے کا ذمہ دار قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ تاجروں اور ہوٹل ایسوسی ایشنز نے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے جوکہ ایک مثبت قدم ہے کیونکہ اس سے ان کی روزی روٹی اور کاروبار متاثر ہوا ہے۔
حنا جیلانی نے جبری تبدیلی مذہب اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کی جبری شادیوں پر تشویش کا اظہار کیا اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا مسئلہ بھی اٹھایا۔
انہوں نے کہا کہ ’انسانی حقوق کے سرکاری ادارے اپنے اختیار کا استعمال نہیں کر رہے ہیں، خواجہ سراؤں پر تشدد ہر صوبے کا مسئلہ ہے، ملازمت، تعلیم اور دیگر حقوق میں امتیاز برتا جاتا ہے، معذور افراد کو ان کے حقوق نہیں مل رہے‘۔
حنا جیلانی نے مزید کہا کہ لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی حاصل نہیں، انسانی حقوق کے لیے سرگرم حلقے انتہائی کمزور ہیں اور وہ مسلسل اس مقام کو کھو رہے ہیں جو اس نے طویل جدوجہد کے بعد حاصل کیا تھا، آج بھی سول سوسائٹی کے لیے ’نو گو ایریاز‘ موجود ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ملوث ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی صورتحال سے سیاسی جماعتوں کو ہی نمٹنا چاہیے، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں سیاسی انتشار پیدا کرنے کے لیے تحلیل کی گئیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن کی سینیئر رکن نسرین اظہر نے تجویز دی کہ میڈیا کو صرف سیاست پر توجہ دینے کے بجائے عوام کے مسائل کو اجاگر کرنا چاہیے۔