دنیا

بھارت: بہار میں مدرسے کی تاریخی لائبریری نذر آتش کیے جانے پر مسلمان افسردہ

پرتشدد ہجوم نے 31 مارچ کو مشہور مذہبی درس گاہ 'مدرسہ عزیزیہ' میں قائم لائبریری نذر آتش کی تھی، رپورٹ

بھارت کی ریاست بہار میں 113 سال پرانے مدرسے کی تاریخی لائبریری نذر آتش کیے جانے پر مسلمان افسردہ ہیں جہاں قدیم مخطوطات اور خوبصورت کیلی گرافی میں درج اسلامی تحریروں سمیت 4 ہزار 500 سے زائد کتابیں موجود تھیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ریاست بہار کے قصبے بہار شریف میں مشہور مذہبی درس گاہ ’مدرسہ عزیزیہ‘ میں قائم لائبریری 31 مارچ کو پرتشدد ہجوم کی جانب سے نذر آتش کی گئی تھی۔

بی بی سی کے مطابق مذکورہ واقعہ ہندو مذہبی تہوار رام ناوامی کے دوران پیش آیا تھا، ملزمان لاٹھیوں، پتھروں اور پیٹرول بموں سے مسلح تھے اور مدرسے پر حملے سے قبل مبینہ طور پر اشتعال انگیز نعرے لگائے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ واقعہ بہار میں اس دن پیش آنے والے دیگر متعدد واقعات میں سے ایک تھا جہاں کئی افراد زخمی ہوئے اور کئی گاڑیوں اور دکانوں پر حملہ کیا گیا تھا۔

پولیس نے نسلی فسادات میں ملوث متعدد افراد کو گرفتار کرلیا تھا اور اس حوالے سے تفتیش جاری ہے۔

عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ سیکڑوں افراد کے ہجوم نے تالے اور مدرسے کا مرکزی دروازہ توڑ ڈالا اور دھاوا بول دیا، ان میں سے چند افراد نے کلاس رومز اور لائبریری کے اندر پیٹرول بم پھینکا اور آگ لگا دی۔

مدرسے کے ایک باورچی نے بتایا کہ ’اچانک میں دھواں سونگھ سکتا تھا، جب میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا دفتر کے قریب افراتفری تھی، ہجوم ہوسٹل کی طرف بھی گیا، میں سہم کر بیڈ کے نیچے چھپ گیا‘۔

لائبریری آگ کی لپیٹ میں آئی اور اندر ہاتھ سے لکھی ہوئی 250 کتابوں، تاریخی دستاویزات اور قدیم فرنیچر سمیت جو کچھ تھا بھسم ہوگیا۔

مذکورہ لائبریری میں زیادہ تر مدرسے کے طلبہ آتے تھے جہاں تقریباً 500 طلبہ زیرتعلیم ہیں اور ان میں سے 100 ہوسٹل میں رہائش پذیر ہیں لیکن اس وقت عمارت میں وہ موجود نہیں تھے کیونکہ رمضان کی وجہ سے کلاسز نہیں ہو رہی تھیں۔

مدرسے کا انتظام چلانے والے صغریٰ ٹرسٹ کے صدر اور اسلامی اسکالر سید سیف الدین فردوسی کا کہنا تھا کہ عمارت اور فرنیچر کا نقصان پورا کیا جاسکتا ہے لیکن علم اور ثقافتی ورثے کا نقصان دائمی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمارت اس سے پہلے 2017 میں بھی نشانہ بنی تھی اور اسی وجہ سے کئی برس تک پولیس نے تحفظ فراہم کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق مدرسے کی تعمیر بی بی صغریٰ نامی ایک خاتون نے اپنے شوہر عبدالعزیز کی یاد میں کی تھی، یہ مدرسہ ابتدائی طور پر 1896 میں پٹنہ شہر میں تعمیر کیا گیا تھا اور بعد میں بہار شریف منتقل کر دیا گیا تھا۔

بی بی صغریٰ نے 14 ہزار ایکڑ اراضی سمیت اپنی جائیداد بھی عطیہ کر دی تھی، انہوں نے تعلیم کی فراہمی اور غریب افراد کی مدد کے لیے آمدنی کے انتظام کرنے کے لیے ایک ٹرسٹ بھی بنایا تھا۔

ٹرسٹ اسکولوں اور کالجوں کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں اور ہوسٹلز کی تعمیر کے لیے پیسہ فراہم کرتا ہے جو آج بھی پورے بہار میں متحرک ہے۔

سید سیف الدین فردوسی نے کہا کہ بی بی صغریٰ ایک روشن خیال، سماجی طور پر فکرمند اور دانا خاتون تھیں، جنہوں نے اپنی جائیداد رشتہ داروں میں بانٹنے کے بجائے برادری اور ملک کی خدمت میں عطیہ کر دی۔

سوات: کبل تھانے میں دھماکے سے جاں بحق افراد کی تعداد 12 ہوگئی

سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تو ملک بھر میں احتجاج ہوگا، عمران خان

اعلیٰ عہدیداروں کی ’رشتہ دار خواتین‘ کی آڈیو لیک سے بحث چھڑ گئی