پاکستان

لاہور ہائی کورٹ نے مفت گندم کی پالیسی کے خلاف درخواست مسترد کردی

صارفین کا یہ دعویٰ کرنے کا کوئی حق نہیں کہ انہیں گندم یا آٹے کی خریداری پر سبسڈی لازمی طور پر فراہم کی جائے، لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ

لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ افراد یا عوام (یعنی صارفین) کا یہ دعویٰ کرنے کا کوئی حق نہیں کہ انہیں گندم یا آٹے کی خریداری پر سبسڈی لازمی طور پر فراہم کی جائے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جسٹس مزمل اختر شبیر نے ریمارکس دیے کہ لہذا عدالت کسی بھی قانون یا پالیسی کی عدم موجودگی میں اس کا جواز پیش کرنے کے لیے حکومت کو صارفین کو رعایتی نرخوں پر اشیا فراہم کرنے کے لیے ہدایات جاری نہیں کر سکتی۔

مفاد عامہ کی حامل درخواستوں پر سنائے گئے فیصلے میں جج نے فیصلہ دیا کہ کم مراعات یافتہ افراد کو مفت گندم کے آٹے کی فراہمی کے حوالے سے عدالت کے سامنے سوال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کو خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ذرائع فراہم کرے، اگر حالات متقاضی ہوں تو حکومت ان لوگوں کو مفت آٹا فراہم کر سکتی ہے جو اسے اپنے ذرائع سے نہیں خرید سکتے۔

درخواستوں میں پنجاب کی نگران حکومت کی جانب سے مقرر کردہ گندم کی 3900 روپے کی ریلیز پرائس کو غیر قانونی، غیر آئینی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور الیکشن ایکٹ 2017 کی خلاف ورزی پر چیلنج کیا گیا تھا۔

درخواست میں عدالت سے کہا کہ وہ قیمت کو کم کرے اور حکومت کو ہدایت کرے کہ وہ 2200 روپے فی 40 کلو گرام کی قیمت کو بحال کرے اور اس کے ساتھ ساتھ ماضی میں عوام کے وسیع تر مفاد میں 1765 روپے فی 40 کلو گرام کے حساب سے فروخت کی صورت میں فراہم کی گئی سبسڈی کو بحال کرے، درخواستوں میں رمضان پیکج کے طور پر مفت آٹے کی تقسیم پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے۔

جج نے کہا کہ حکومت کی طرف سے مفت گندم کی سپلائی کی بندش کا یہ دعویٰ کسی قانونی جواز کے بغیر ہے کہ دیگر شہریوں کو گندم اور آٹا سبسڈی والے نرخوں پر فراہم کیا جائے، عدالت نے کہا کہ رمضان پیکج کے تحت مفت آٹے کی فراہمی حکومت کا پالیسی فیصلہ ہونے کی وجہ سے کسی قسم کی تفریق نہیں کرتا بلکہ یہ معقول درجہ بندی پر مبنی ہے، اس لیے اس معاملے میں عدالت کی طرف سے مداخلت کا حق نہیں بنتا۔

عدالت نے حکومت کے اس استدلال کی توثیق کی کہ ملوں کو گندم کی جلد فراہمی کے باعث سابقہ اسٹاک کم ہو رہا تھا اور قلت کے امکان سے بچنے کے لیے درآمدی اور دیگر ذرائع سے گندم زیادہ نرخ پر خریدی گئی، چونکہ گندم اور آٹے کی قیمت مارکیٹ کے ذرائع کنٹرول کرتے ہیں اس لیے فلور ملوں کو جس قیمت پر گندم فراہم کی جانی تھی اسے بڑھا کر 3900 روپے فی 40 کلو گرام کرنا پڑا جس کی قیمت بھی بھاری سبسڈی دے کر مقرر کی گئی تھی کیونکہ مارکیٹ کی تازہ ترین قیمت بہت زیادہ تھی۔

جسٹس شبیر نے مشاہدہ کیا کہ گندم جیسی اجناس کی قیمتوں کے تعین میں متعدد عوامل شامل ہوتے ہیں جن میں مارکیٹ کی قوتیں شامل ہیں اور یہ تعین ایگزیکٹو کے خصوصی دائرہ کار میں آتا ہے۔

درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے جسٹس شبیر نے فیصلہ دیا کہ قیمت کا تعین کسی بھی طرح حکومت کی غیر منصفانہ افزودگی کے مترادف نہیں ہے کیونکہ اسی کا فائدہ مستحق لوگوں کو پہنچایا جا رہا ہے۔