پاکستان

کسی ایک صوبے میں الیکشن کا انعقاد مسائل کا حل نہیں، سراج الحق

اگر پنجاب میں الیکشن ہو بھی گئے تو لوگ نتائج قبول نہیں کریں گے، 21 ارب روپے لاگت سے ہونے والے الیکشن انعقاد سے قبل ہی متنازع ہو گئے ہیں، امیر جماعت اسلامی

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ ہم وفاق سمیت پورے ملک میں ایک ہی تاریخ پر الیکشن چاہتے ہیں کیونکہ کسی ایک صوبے میں الیکشن کا انعقاد مسائل کا حل نہیں ہے۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ اگر پنجاب میں الیکشن ہو بھی گئے تو لوگ اس کے نتائج قبول نہیں کریں گے اور جس الیکشن پر 21 ارب روپے خرچ ہو رہے ہیں وہ ہونے سے پہلے ہی متنازع بن گیا ہے۔

سراج الحق نے کہا کہ اس الیکشن کے نتیجے میں فساد اور خانہ جنگی ہوگی اس لیے ہم نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک لیبیا اور شام بن جائے۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف غربت، مہنگائی اور بیروزگاری ہے جبکہ دوسرے طرف حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان یہ لڑائی ہے تو غریب عوام اس کے بیچ سینڈوچ بن گیا ہے۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ججز بھی ایک پیج پر نہیں ہیں اور آپس میں لڑ رہے ہیں اس لیے ان حالات میں جماعت اسلامی نے مناسب سمجھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ روابط ہوں اور کچھ حد تک اس میں پیش رفت بھی ہوئی جس کے نتیجے میں اب ہر سیاسی جماعت کا مؤقف ہے کہ مذاکرات ہونے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ اب ہمارے مسائل کا کوئی اور حل نہیں ہے اور نہ حکومتیں چلنے والی ہیں، اس لیے میں نے کل سپریم کورٹ میں بھی کہا تھا کہ آئین میں 90 دن مقرر ہیں لیکن جب سپریم کورٹ اور صدر نے مل کر 90 دن کو 105 دن بنایا تو اب ان کو 205 بنانا بھی بڑا کام نہیں ہے۔

سراج الحق نے کہا کہ کل ہم سب سپریم کورٹ میں موجود تھے جہاں سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہم ایک متفقہ پوائنٹ پر پہنچ جائیں لیکن اب پانی اتنا بہہ گیا ہے کہ اس متفقہ تاریخ تک پہنچنے میں وقت لگے گا لیکن یہ ہوگا ضرور۔

انہوں نے کہا کہ کل سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کو واضح پیغام دیا کہ 27 تاریخ تک اپنے لیے خود ایک تاریخ کا تعین کریں اور ہمیں بتائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران میں نے خود بھی دیکھا کہ وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ اگر تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی تاریخ پر اتفاق کریں گی تو سپریم کورٹ بھی 14 مئی پر نظرثانی کرے گی۔

’مولانا ہدایت الرحمٰن اور ماہی گیروں سے اظہار یکجہتی کے لیے یکم مئی کو احتجاج‘

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ مولانا ہدایت الرحمٰن کو ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار کیے 100 دن ہوگئے ہیں، انہوں نے گوادر کے ماہی گیروں کے مسائل کے حل کے لیے احتجاج کیا تھا کیونکہ وہاں سمندر کے کنارے گوادر شہر تو آباد ہے مگر وہ پانی سے محروم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گوادر میں شدید بدامنی اور منشیات فروشی کا دھندہ عام ہے جبکہ حکمرانوں نے صدیوں سے سمندر میں جاکر رزق حلال کمانے والے مقامی ماہی گیروں کے راستے بند کرکے باہر سے ٹرالر مافیا لاکر ان کا روزگار ختم کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بجائے اس کے کہ حکومت گوادر کے لوگوں کے مطالبات تسلیم کرتی، بلوچستان کی صوبائی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے مل کر مولانا ہدایت الرحمٰن کو جیل میں بند کردیا اور کارکنان پر مقدمات درج کردیے۔

انہوں نے کہا کہ گوادر بہت اہم شہر ہے اور سی پیک کے حوالے سے گوادر اب ایک حساس شہر ہے جہاں بین الاقوامی ممالک نے نظر رکھی ہوئی ہے لیکن ہماری خواہش ہے کہ یہاں مکمل امن ہو اور سی پیک کا منصوبہ مکمل ہو۔

سراج الحق نے کہا کہ مولانا ہدایت الرحمٰن اور گوادر کے لوگ سی پیک منصوبے کے مخالف نہیں ہیں نہ ہی انہوں نے اس کے خلاف کوئی بیان دیا ہے لیکن صوبائی حکومت شاید یہ چاہتی ہے کہ یہاں کے لوگ مشتعل ہوں اور یہ منصوبہ متاثر ہو لیکن ہم ایسا نہیں چاہتے۔

انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی یکم مئی کو مولانا ہدایت الرحمٰن اور گوادر کے ماہی گیروں اور لوگوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے ملک بھر میں احتجاج کرے گی۔

امیر جماعت اسلامی مولانا ہدایت الرحمٰن کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دوہرا معیار ہے کہ ایک طرف آپ ملزم کا انتطار کرتے ہیں، ان کو سیکیورٹی دیتے ہیں اور رات کو عدالتیں کھولتے ہیں لیکن دوسرے طرف اگر عام پاکستانی کے ساتھ یہ ظلم و جبر ہوگا تو اس سے نفرتیں بڑھیں گی اور بلوچستان کے لوگوں میں پاکستان سے دوری پیدا ہوگی۔

سراج الحق نے کہا کہ میں بلوچستان کی صوبائی حکومت اور وہاں موجود اسٹیبلشمنٹ سے پوچھتا ہوں کہ آپ چاہتے ہیں کہ یہاں ہنگامے ہوں اور بلوچ نوجوان کوئی اور راستہ اختیار کرلیں۔

سنگاپور: بھنگ کی اسمگلنگ میں ملوث شخص کو اگلے ہفتے پھانسی دی جائے گی

چاند رات پرہاتھوں پر کیسی مہندی سجائی جائے؟ کون سا ڈیزائن ٹرینڈ کررہا ہے؟

’میں نہ مانوں‘ کے ماحول میں سیاستدان اپنی بات کیسے منوائیں؟