دنیا

سنگاپور: بھنگ کی اسمگلنگ میں ملوث شخص کو اگلے ہفتے پھانسی دی جائے گی

سنگاپور کے 46 سالہ تنگاراجو سپیا کو بدھ کے روز پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے گا۔

سنگاپور کے ایک شخص کو ایک کلو بھنگ اسمگل کرنے کی سازش کے الزام میں اگلے ہفتے پھانسی دی جائے گی جو شہر میں چھ ماہ میں دی جانے والی پہلی پھانسی کی سزا ہو گی۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق محکمہ جیل خانہ جات کی جانب سے اس کے اہل خانہ کو موصول ہونے والے نوٹس اور انسانی حقوق کارکنوں کی جانب سے سوشل میڈیا کی گئی پوسٹ کے مطابق سنگاپور کے 46 سالہ تنگاراجو سپیا کو بدھ کے روز پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے گا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جمعہ کو اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے انتہائی ظالمانہ قرار دیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مقامی دفتر کے ترجمان نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس سزائے موت پر عمل درآمد کیا جاتا ہے تو یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوگی۔

تھائی لینڈ سمیت دنیا کے بہت سے حصوں میں بھنگ کا استعمال اور اس کی فروخت کو جرم قرار دیا گیا ہے، حکام نے جیل کی سزاؤں کو ختم کر دیا ہے اور انسانی حقوق کے گروپ سنگاپور پر سزائے موت کو ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

سنگاپور میں دنیا کے کچھ سخت ترین انسداد منشیات کے قوانین ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ سزائے موت اسمگلنگ کے خلاف ایک مؤثر رکاوٹ ہے۔

تنگاراجو کو 2017 میں ایک کلو بھنگ کی اسمگلنگ کے الزام میں سزا سنائی گئی جہاں آدھا کلو بھنگ برآمد ہونے پر بھی قانون کے تحت کسی شخص کو سزا دی جا سکتی ہے۔

ملزم کو 2018 میں موت کی سزا سنائی گئی اور اپیل کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔

استغاثہ نے کہا کہ ملزم کے پاس دو موبائل فون نمبر تھے جو رابطے کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔

انسانی حقوق کے کارکن کرسٹن ہان نے اے ایف پی کو بتایا کہ پریشان کن بات یہ ہے کہ تنگاراجو حقیقتاً کبھی بھی منشیات کا کاروبار نہیں کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے قانونی مشیر کے بغیر ملزم سے بھی پوچھ گچھ کی اور کہا کہ اسے تامل مترجم دینے سے بھی انکار کیا گیا۔

ہائی کورٹ کے جج ہوشیاؤ پینگ نے کہا تھا کہ جو کوئی بھی قانون کے تحت کسی جرم کے ارتکاب کی حوصلہ افزائی کرتا ہے وہ بھی اس جرم کا مرتکب قرار دے کر اسی سزا کا مستحق ہو گا۔

سنگاپور نے دو سال سے زائد کے وقفے کے بعد مارچ 2022 میں پھانسی کے عمل کا دوبارہ سے آغاز کیا تھا۔

سنگاپور میں پچھلے سال گیارہ پھانسیاں دی گئیں اور یہ سب منشیات کے جرائم کے ارتکاب پر دی گئی تھیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سزائے موت عالمی سطح پر جائم کی روک تھام میں موثر ثابت نہیں ہوئی اور یہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون سے مطابقت نہیں رکھتی جو صرف انتہائی سنگین جرائم کے لیے سزائے موت کی اجازت دیتا ہے۔