سر پر بندوق رکھ کر مذاکرات پر اتفاق رائے کی امید نہ رکھیں، وزیر خارجہ
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ منسوخ نہیں کیا جاتا مذاکرات کے لیے اپنے اتحادیوں کو کیسے راضی کروں گا، سر پر بندوق رکھ کر کوئی مذاکرات نہیں کر سکتا، آپ یہ امید نہیں کر سکتے کہ گن پوائنٹ سے مذاکرات پر اتفاق رائے پیدا ہوگا اور اگر مذاکرات ہوئے تو وہ کامیاب بھی ہوں گے ۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم کل بھی ون یونٹ کے خلاف تھے اور آج بھی ون یونٹ کے خلاف ہیں۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ چند عناصر کی ضد کی وجہ سے اگر زبردستی کسی صوبے بالخصوص پنجاب میں الیکشن پہلے کرائے جائیں گے تو اس کے نتائج سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا پر اثرانداز ہوں گے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے یہ اعتراضات ہیں کہ ملک میں ون یونٹ نافذ کرنے کے لیے بیک ڈور سے یہ سازش کی جارہی ہے، اس لیے کافی وقت سے ہماری یہ کوشش ہے کہ پہلے اتحادیوں کو مذاکرات پر راضی کریں اور اگر سیاسی مخالفین سے بھی مذاکرات کرنے پڑیں تو وہ بھی کیے جائیں گے کہ ہم سب ملک بھر میں ایک ہی دن الیکشن کرانے کے حامی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج بھی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں موجود تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ہم پارلیمان اور اس کے فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم کافی وقت سے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرتے آرہے ہیں اور پی ڈی ایم میں شامل تمام سیاسی جماعتوں سے بات چیت کی ہے لیکن اتحاد میں کچھ چیزوں پر اتفاق رائے پیدا کرنا مشکل ہوگا، مذاکرات پارلیمان یا سینیٹ میں ممکن ہیں ان سے باہر ناممکن ہیں اور کسی دوسرے ادارے میں سیاسی بات کروانے سے متعلق پی ڈی ایم میں اتفاق رائے پیدا کرنا مشکل ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ سر پر بندوق رکھ کر کوئی مذاکرات نہیں کر سکتا، آپ یہ امید نہیں کر سکتے کہ گن پوائنٹ سے مذاکرات پر اتفاق رائے پیدا ہوگا اور آپ یہ امید بھی نہیں کر سکتے کہ اگر مذاکرات ہوئے تو وہ کامیاب ہوں گے ۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے سر پر رکھی گئی بندوق سے میں اپنے تمام اتحادیوں کو مذاکرات پر راضی کر سکوں گا اور اگر وہ راضی ہو بھی جاتے ہیں تو مذاکرات کے عمل سے گزرنا مشکل ہوگا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ بندوق 3-2 کا اقلیتی فیصلہ ہے اور زبردستی اکثریت دکھا کر ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم آج بھی سمجھتے ہیں کہ اگر ان مسائل کا حل نہیں نکالا جاتا تو جمہوریت اور وفاق کو سنگین خطرہ ہے، جب تک فیصلہ منسوخ نہیں کیا جاتا تو مذاکرات کے لیے میں اپنے اتحادیوں کو کیسے راضی کروں گا اور جب ہمارے سروں پر بندوق ہوگی تو ہم مذاکرات کیسے کریں گے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر ملک میں سیاسی استحکام آئے گا تو معاشی استحکام آئے گا کیونکہ عام آدمی کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ یہ تین رکنی بینچ تھا یا چار رکنی لیکن عام آدمی کو کوئی فکر ہے تو وہ اپنے گھر چلانے کی ہے اور آج جو معاشی صورتحال ہے اس نے عام آدمی کا جینا حرام کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ پاکستان کے عوام کو ان مسائل سے نکالیں لیکن افسوس کے ساتھ عوام کے معاشی حالات اور سیلاب متاثرین کے مسائل کا حل نکالنے کے بجائے ہم سب سیاسی صورتحال اور پولارائزڈ ماحول میں آپریٹ کر رہے ہیں جہاں عوام، پارلیمان اور عدلیہ تقسیم ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اس صورتحال میں پیپلز پارٹی کی کوشش ہے کہ ہم مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں اور کوشش کریں کہ اتفاق رائے پیدا کریں جس سے ایک حد تک ملک میں سیاسی استحکام آئے اور ملک بھر میں ایک ہی دن پر انتخابات کے انعقاد پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم تو چار ججز کے اکثریتی فیصلے پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ میں آج تک یہ امید رکھتا ہوں کہ ہمارے معزز چیف جسٹس اپنا عہدہ چھوڑنے سے پہلے اور سیاسی میدان میں اپنی کوشش کے بجائے عدلیہ میں اتحاد قائم کرکے عہدہ چھوڑیں گے تو تاریخ ان کو اہمیت دے گی، ویسے پاکستان میں چیف جسٹس کی تاریخ کو جس طرح یاد رکھا گیا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔
انہوں نے کہا کہ عید کے بعد ہمارا سربراہی اجلاس ہوگا جس میں اس معاملے کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا، یہ اچھی بات ہے کہ عدلیہ نے سیاسی اتفاق رائے کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے، لیکن میرے لیے اپنے اتحادیوں میں اتفاق رائے قائم کرنا اس لیے مشکل ہوگا کہ عدلیہ ایک قانونی فورم ہے اور سینیٹ ایک سیاسی فورم ہے، اس لیے اگر مذاکرات سینیٹ میں ہوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوں تو اس پر اتفاق رائے قائم کرنا آسان ہوگا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ بات تقریباً ناممکن ہے کہ ہم اپنے اتحادیوں کو اس بات پر راضی کریں کہ سپریم کورٹ کی پنچایت میں بات چیت کریں، خاص طور پر ایسی صورتحال میں جب اکثریتی فیصلہ ہمارے سروں پر بندوق کی طرح استعمال کیا جارہا ہے۔