صدر مملکت نے چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق بل ایک بار پھر نا منظور کرتے ہوئے واپس بھیج دیا
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک بار پھر چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے کے بل کی منظوری دینے سے انکار کردیا اور اسے عدالت میں زیر سماعت قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیا۔
صدر مملکت نے اپنے جواب میں کہا کہ قانون سازی کی اہلیت اور بل کی درستگی کا معاملہ ملک کے اعلیٰ ترین عدالتی فورم کے سامنے زیر سماعت ہے، معاملہ زیرسماعت ہونے کے احترام میں، بل پر مزید کوئی کارروائی مناسب نہیں ہے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت چیف جسٹس کا از خود نوٹس لینے اور بینچ کی تشکیل کا اختیار عدالت عظمیٰ کے 3 سینیئر ترین ججوں کے پاس ہوگا جبکہ اس وقت یہ اختیارات چیف جسٹس کو حاصل ہیں۔
اس بل کی منظوری وفاقی کابینہ نے 28 مارچ کو دی تھی اور پھر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے اس کو منظور کیا گیا تھا جس کے اسے منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھیجا گیا تھا جب کہ انہوں نے یہ کہتے ہوئے دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے۔
بعدازاں پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی طرف سے کچھ ترامیم کے ساتھ پیش کیا گیا سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا تھا۔
اس کے بعد اسے دوبارہ صدر مملکت کی منظوری کے لیے بھیجا گیا اور آئین کے مطابق 10 روز کے اندر بل پر دستخط نہ ہونے کی صورت میں وہ از خود منظور شدہ قانون بن جائے گی۔
لیکن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بل کی منظوری کے 3روز بعد ہی ایک پیشگی اقدام کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے سے متعلق بل 2023 کی صدر مملکت کی جانب سے منظوری کے بعد یا دوسری صورت میں اس کے ایکٹ بننے کی صورت میں یہ مؤثر نہیں ہوگا، نہ ہی کسی بھی طرح سے اس پر عمل کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کے حکم میں کہا گیا کہ ایکٹ بادی النظر میں عدلیہ کی آزادی اور اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، اس کے متن میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر تا حکم ثانی کسی بھی طریقے سے عمل درآمد نہیں ہوگا، سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت عدلیہ اور خصوصی طور پر سپریم کورٹ کی ادارہ جاتی آزادی کے لیے متفکر ہے۔
عدالت عظمیٰ کے اس پیشگی اقدام کو حکمراں اتحاد کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، وفاقی حکومت اور پاکستان بار کونسل نے بھی 8 رکنی بینچ پر اعتراض اٹھایا اور اس حکم کو ’متنازع اور یکطرفہ‘ قرار دیا۔
بل کی شقیں
بینچز کی تشکیل کے حوالے سے منظور کیے گئے بل میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔
عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے بل میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔
اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔
بل میں کہا گیا کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔