پاکستان

ڈاکٹر اجمل ساوند کا قتل اور قبائلی دشمنی میں جکڑا سندھ

ڈاکٹر اجمل ساوند کچے میں اپنی زمین پر گئے جہاں انہوں نے اپنے قبیلے کے لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ اپنے بچوں کو نہیں پڑھاتے صرف جھگڑوں میں زندگی تباہ کر رہے ہیں۔

’اس رات ڈاکٹر اجمل ساوند اپنی سادگی اور خلوص کو برقرار رکھتے ہوئے گاؤں میں آباد زمین پر آئے تھے جہاں انہوں نے قبیلے کے لوگوں پر زور دیا کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کریں۔ سحری کرکے صبح کے وقت زمین گھوم کر جب وہ واپس جارہے تھے تو مسلح افراد نے انہیں روک کر قتل کردیا‘۔

فرانس سے کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر اجمل ساوند کے بڑے بھائی ڈاکٹر طارق ساوند اپنے بھائی کے قتل کی تفصیلات ڈان کو بتا رہے تھے۔

ڈاکٹر اجمل ساوند کون تھے؟

بالائی سندھ کے ضلع کندھ کوٹ میں قبائلی تنازع کی بنیاد پر ڈاکٹر اجمل ساوند کے قتل کے خلاف جہاں پورے صوبے میں احتجاج کیا جارہا ہے وہیں قبائلی تنازعات پر گہری تشویش کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) سکھر کے پروفیسر ڈاکٹر اجمل ساوند نے فرانس سے کمپیوٹر سائنس اور مصنوعی ذہانت میں پی ایچ ڈی کی تھی۔

پروفیسر اجمل ساوند کے قتل کے بعد ان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’میں فرانس میں انگریزوں کو پڑھاتا تھا فی لیکچر پاکستانی 30 ہزار روپے ملتے تھے لیکن میں نے انہیں کہا کہ مجھے پاکستان جاکر سندھ کے بچوں کو پڑھانا ہے‘۔

ڈاکٹر اجمل ساوند کا تعلق بالائی سندھ کے چھوٹے سے شہر کندھ کوٹ سے تھا۔ انہوں نے مہران انجینیئرنگ یونیورسٹی سے بی ای کی ڈگری حاصل کی تھی جس کے بعد اسکالر شپ پر فرانس گئے جہاں انہوں نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

ڈاکٹر طارق ساوند نے بتایا کہ ’3 سال قبل سندرانی قبیلے کے لوگوں نے ساوند قبیلے کے 2 افراد کو ’کارو کاری‘ کے الزام میں قتل کیا تھا جس کے بعد یہ معاملہ وہیں ختم ہوگیا لیکن پھر گزشتہ برس اکتوبر میں تعلقہ کشمور کے جام ساوند گاؤں میں ساوند قبائل کے لوگوں نے سندرانی قبیلے کے ایک شخص کو‘کارو کاری’ کے الزام میں قتل کردیا تھا جس کی وجہ سے دونوں قبائل میں دشمنی شروع ہوئی’۔

ڈاکٹر طارق نے بتایا کہ ’ہم ساوند قبیلے کے بڑے ہیں لیکن ان معاملات سے دُور دُور تک ہمارا کوئی تعلق نہیں تھا اور پھر اسی طرح سندرانی قبیلے کے لوگوں نے ساوند قبیلے کے ایک اور شخص کو گاڑی سے اتار کر قتل کردیا اور اسی طرح دشمنی میں اضافہ ہوتا گیا جس کے بعد گندم کی کٹائی کے دوران دونوں قبائل کے درمیان فائرنگ کے نتیجے میں ایک خاتون بھی جاں بحق ہوگئی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’جب دونوں قبائل میں دشمنی بڑھتی گئی تو میں نے سندرانی قبیلے کے سردار میر عابد خان سندرانی سے 2 رمضان کو ملاقات کی اور ان سے کہا کہ اس جھگڑے کو جتنا جلدی ہو ختم کروائیں، اس پر انہوں نے اپنے قبیلے کے کچھ لوگوں سے بات کی اور بتایا کہ فیصلہ کرکے معاملہ حل کرتے ہیں۔

’14 ویں روزے کو ڈاکٹر اجمل ساوند کچے میں اپنی زمین پر گئے جہاں انہوں نے اپنے قبیلے کے لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ اپنے بچوں کو نہیں پڑھاتے صرف جھگڑوں میں زندگی تباہ کر رہے ہیں‘۔

ڈاکٹر طارق نے بتایا کہ ’ڈاکٹر اجمل نے سحری کی، جس کے بعد وہ یونیورسٹی روانہ ہو رہے تھے کہ قبیلے کے لوگوں نے ان سے کہا کہ دشمنی چل رہی ہے اس لیے ہم آپ کو کچھ مسلح افراد ساتھ دیتے ہیں ان کو لے جائیں جس پر ڈاکٹر اجمل نے کہا کہ میرا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں میں رات بھی خیریت سے آیا تھا اب بھی خیریت سے اکیلا جاؤں گا‘۔

’شہر سے کچھ فاصلے پر ڈاکٹر اجمل کو چند مسلح افراد نے روکا اور فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہوگئے۔‘ ڈاکٹر طارق نے افسردہ لہجے میں بتایا۔

انہوں نے کہا کہ ’آج تک ایک بھی قاتل گرفتار نہیں ہوا نہ ہی کوئی کارروائی کی گئی ہے جبکہ سندرانی قبیلے کے لوگوں نے پولیس پر بھی فائرنگ کی مگر ابھی تک ڈاکٹر اجمل کے قاتل گرفتار نہیں ہوئے‘۔

اس حوالے سے بات کرنے پر ایس ایس پی شبیر سیٹھار نے ڈان کو بتایا کہ ’جلد ہی قاتلوں کے خلاف کارروائی کرکے انہیں گرفتار کیا جائے گا اور پولیس نے گرفتاریوں کے لیے اپنی کارروائیاں تیز کردی ہیں۔‘

ڈاکٹر اجمل ساوند کے قتل کے خلاف سندھ بھر میں سیاسی اور سماجی تنظیموں نے احتجاج کرنا شروع کردیے اور قتل کا سبب قبائلی تنازع کو قرار دیا گیا۔

اس وقت سندھ کے بالائی علاقے بالخصوص کشمور،کندھ کوٹ، گھوٹکی میں متعدد قبائل کے درمیان خونی تنازعات چل رہے ہیں جس کی وجہ سے آئے دن ایک یا دو افراد اس کا شکار ہوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پروفیسر اجمل ساوند کو بھی قبائلی تنازع پر قتل کیا گیا ہے۔

سندھ میں قبائلی تنازعات کے نتیجے میں یہ کوئی پہلا قتل نہیں بلکہ اس سے قبل بھی سیکڑوں لوگ ان تنازعات کی وجہ سے قتل ہو چکے ہیں۔ جہاں ان قبائلی تنازعات میں سیکڑوں معصوم انسان قتل ہوئے ہیں وہیں ان قبائل کے لوگوں کے کاروبار اور بچوں کی تعلیم بھی سخت متاثر ہورہی ہے جس کی وجہ سےسندھ میں اب اس معاملے پر سخت تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے ہم نے سندھ میں قبائلی تنازعات کے فیصلے کرنے والے سابق صوبائی وزیر میر منظور خان پہنور سے تفصیلی بات چیت کی اور قبائلی تنازعات کی وجوہات معلوم کرنے کی کوشش کی۔

کیا ڈاکٹر اجمل ساوند کا قتل قبائلی تنازع کا نتیجہ ہے؟

سندھ میں قبائلی تنازعات کے فیصلے کرنے والے سابق صوبائی وزیر میر منظور خان پہنور نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سندھ میں اس طرح کے تعلیم یافتہ لوگ پہلے ہی بہت کم ہیں، ڈاکٹر اجمل ساوند کا قتل انتہائی افسوس ناک ہے۔‘

میر منظور پہنور نے کہا کہ ’اجمل ساوند کا قتل قبائلی دشمنی کا نتیجا ہے لیکن اس میں اجمل ساوند کا کوئی قصور نہیں تھا۔ منظور پہنور نے کہا کہ ساوند اور سبزوئی قبائل کے درمیان خونی جھگڑے بہت پرانے ہیں جس کا میں نے 3 بار فیصلہ کیا تھا‘۔

میر منظور پہنور نے کہا کہ ’بالخصوص بالائی سندھ میں متعدد قبائلی تنازعات چل رہے ہیں جس میں سیکڑوں لوگ قتل کیے گئے ہیں اور ان میں سے متعدد تنازعات کو فیصلوں کے ذریعے حل کیا گیا ہے کیونکہ اس طرح کے تنازعات عدالتوں میں کم آتے ہیں اس لیے ان کو مقامی روایتوں کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان علاقوں میں امن برقرار رکھا جائے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’ہماری کوشش ہوتی ہے کہ فیصلوں کے ذریعے قبائلی جھگڑوں کو روکا جائے جس پر عدالتوں کو اعتراضات ہوتے ہیں لیکن اگر فیصلے نہیں کیے جائیں گے تو مزید لوگ قتل ہوں گے اور ہم ’جرگے‘ نہیں صلح کرواتے ہیں جو کہ واحد حل ہیں‘۔

سندھ میں اس وقت کتنے قبائلی تنازعات جاری ہیں؟

قبائلی تنازعات کے بارے میں بتاتے ہوئے میر منظور پہنور نے کہا کہ ’اس وقت کشمور اور کندھ کوٹ میں متعدد قبائلی جھگڑے جاری ہیں جبکہ سندھ کے دیگر اضلاع میں اسی طرح کے جھگڑے پائے جاتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’مدیجی شہر میں پہنور اور بروہی قبائل کے درمیان دشمنی گزشتہ 8 برس سے چل رہی ہے جس میں کئی لوگ مارے جاچکے ہیں اسی طرح کشمور میں چاچڑ اور جاگیرانی قبائل کا تنازع جاری تھا جس میں کچھ حد تک دونوں فریقین کو مزید جھگڑے سے روکنے میں کامیابی ملی ہے‘۔

منظور پہنور نے کہا کہ ’ضلع خیرپور میں ناریجو اور بھٹا، ناریجو اور اوڈھا، اجن اور کلیری قبائل کے درمیان دشمنی بھی بہت پرانی ہیں جس میں 50 سے زائد لوگ قتل ہو چکے تھے لیکن اب ان کے فیصلے کیے گئے ہیں جس کے بعد وہاں زمینیں بھی آباد ہیں اور لوگ بھی امن سے رہتے ہیں‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’جہاں جھگڑے ہوتے ہیں وہاں ڈکیتوں کو پناہ گاہ ملتی ہے جہاں سے ان کو اسلحہ چلانے کی تربیت ملتی ہے اور پھر وہ لوگوں کو اغوا بھی کرتے ہیں، ڈکیتی بھی کرتے ہیں اور قتل بھی کرتے ہیں اس لیے ان جھگڑوں کے شروع ہوتے ہی حکومت کو حرکت میں آکر علاقے کے معززین کے ذریعے ان پر قابو پانا چاہیے اس سے ڈکیتوں اور چوروں کی نرسریاں پیدا نہیں ہوں گی‘۔

واضح رہے کہ اس سے قبل قاضی احمد میں جتوئی اور کھوسہ قبائل کے درمیان جھگڑا، ضلع خیرپور میں سولنگی اور جاگیرانی دشمنی، ضلع جیکب آباد میں جکھرانی اور بھیا قبائل کے درمیاں تکرار، ضلع شکارپور میں مہر اور جتوئی قبائل کے درمیان تصادم (سندھ کی تاریخ کا ایک ہول ناک قبائلی تنازع ہے جس میں 300 سے زائد افراد مارے گئے)، ضلع شکارپور میں عیسانی اور جکھرانی قبائل کے درمیان دشمنی اور جیکب آباد میں چاچڑ اور سبزوئی قبائل کے درمیان بھی خونی جھگڑے رہ چکے ہیں جس میں مجموعی طور پر 400 کے قریب افراد قتل ہوئے۔

قبائلی دشمنیوں سے ڈاکوؤں کا جنم

سکھر سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی، مصنف اور تجزیہ نگار ممتاز بخاری نے ’اپر سندھ‘ میں ہونے والے قبائلی تنازعات کے حوالے سے ڈان کو بتایا کہ اس وقت ساوند اور سندرانی قبائل کا تنازع چل رہا ہے جس میں اب تک ایک خاتون سمیت 6 افراد قتل ہوچکے ہیں لیکن بنیادی طور پر یہ لڑائی ’کارو کاری‘ کی بنیاد پر شروع ہوئی تھی جس میں پروفیسر اجمل ساوند کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا گیا۔

ممتاز بخاری نے کہا کہ اسی علاقے میں سبزوئی اور ساوند قبائل کے درمیان 10 سال تک ایک خونی تنازع رہا جو کہ گھوٹکی، کشمور اور کندھ کوٹ تک پھیلا ہوا تھا جس میں تقریباً 160 افراد قتل ہوئے تھے جس کا 2017 میں فیصلہ کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اپر سندھ میں متعدد قبائلی دشمنیاں جاری ہیں جن میں شکارپور، سکھر اور کندھ کوٹ میں جتوئی اور مہر قبائل، جاگیرانی اور شر قبائل، جانوری اور شیخ قبائل، جاگیرانی قبائل کا آپس میں جھگڑا اور لونڈ پتافی قبائل کے تنازعات رہے ہیں جن میں کم از کم ہر قبیلے کے درجن سے زائد جبکہ زیادہ سے زیادہ سو افراد تک قتل ہو چکے ہیں۔

ممتاز بخاری نے کہا کہ سکھر میں اجن اور کلیری قبائل کا مشہور جھگڑا رہا ہے جس کی وجہ سے پورا علاقہ تناؤ کا شکار رہا ہے جبکہ پیر جو گوٹھ مکمل طور پر تنازعات کا شکار رہا ہے جبکہ اس کے علاوہ حال ہی میں عید سے قبل جتوئی قبیلے کا آپس میں جھگڑا ہوا جس کے نتیجے میں بچوں سمیت 7 افراد قتل کیے گئے، اسی طرح برادریوں کے آپس میں جاری تنازعات بھی بڑی تعداد میں ہیں جس سے سیکڑوں افراد قتل ہو چکے ہیں۔

ممتاز بخاری نے مزید کہا کہ شکارپور سب سے زیادہ متاثر ہوا جس میں مدیجی، لکی غلام شاہ جیسے علاقے قبائلی تنازعات کا مرکز رہے ہیں جبکہ اس کے علاوہ قمبر شہداد کوٹ میں مگسی اور چانڈیو قبائل کا تنازع بھی اپنی نوعیت میں بہت بڑا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کشمور، کندھ کوٹ اور گھوٹکی کے علاقے جڑے ہوئے ہیں جہاں کچے کے علاقوں میں دونوں اطراف سے متعدد قبائل کے درمیان جھگڑے رہے ہیں جس میں ڈاکو کلچر کا بھی بڑا ہاتھ رہا ہے، جہاں ڈاکو بھی ان تنازعات میں حصہ لیتے ہیں جس کی وجہ سے بہت بڑا نقصان ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان قبائلی تنازعات کی وجہ سے بھی ڈاکو پیدا ہوتے ہیں جو بدلہ لینے کے لیے ہتھیار اٹھاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سرکار کی سرپرستی میں متعدد ’جرگے‘ ہو چکے ہیں جہاں ایس ایس پیز، ڈپٹی کمشنرز، اور کمشنرز بھوتاروں (مقامی سرداروں) کے سامنے کھڑے ہوکر بیان دیتے ہیں کہ فلاں قبیلے کے اتنے لوگ قتل ہوئے اور فلاں نے اتنے قتل کیے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں مقامی جاگیردار، سردار اور پیر ان قبائل کے جرگے کرتے ہیں جن میں سب سے زیادہ منظور پہنور، شاہنواز جونیجو، علی گوہر مہر، مرحوم ممتاز بھٹو قبائلی تنازعات کے جرگے کرنے میں مصروف رہے ہیں۔

قبائلی تنازعات کی وجوہات کیا ہیں؟

منظور پہنور نے کہا کہ ’بڑے کہہ کر گئے ہیں کہ ’زن، زر، زمین‘ اس لیے قبائلی تنازع زمین پر بھی ہوتے ہیں، زرعی آبادی کے لیے درکار پانی پر بھی ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ سب سے زیادہ ’کارو کاری‘ جیسے مسائل پر جھگڑے ہوتے ہیں کیونکہ حکومت نے اس معاملے پر فیصلوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے جس کی وجہ سے پھر لوگ عدالتوں میں جاتے وقت بھی قتل ہوجاتے ہیں اور وہیں سے قبائلی تنازعات جنم لیتے ہیں۔

علاوہ ازیں دو قبائل کے درمیان تنازع اکثر مال مویشیوں کی چوری، فصلوں میں مویشیوں کے داخل ہونے، فصلوں پر پانی چھوڑنے، رشتہ داریوں، قبائلی سردار کے خلاف بات کرنے وغیرہ جیسے معاملات پر بھی ہوتے ہیں’۔

کیا قبائلی دشمنیوں میں ’جاگیردار‘ بھی ملوث ہیں؟

میر منظور پہنور نے سب سے پہلے لفظ ’جاگیردار‘ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ’سندھ میں اب کوئی بھی جاگیردار نہیں ہے بلکہ چھوٹے چھوٹے زمین دار ہیں اور وہ بھی اب دم توڑ رہے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’جاگیرداری نظام انگریز حکومت میں ہوا کرتا تھا لیکن اس کے بعد وہ نظام آہستہ آہستہ ختم ہوگیا کیونکہ جاگیریں خاندانوں میں تقسیم ہوگئیں جس کی وجہ سے جاگیرداری نظام کا کوئی وجود باقی نہیں رہا‘۔

میر منظور نے کہا کہ ’کوئی بھی مقامی زمین دار یہ نہیں چاہے گا کہ اس کے علاقے میں امن خراب ہو، ڈاکو کلچر سے مقامی زمین دار بھی متاثر ہوتے ہیں اس لیے قبائلی تنازعات میں کسی مقامی بااثر فرد یا زمین دار کا ہاتھ نہیں ہوتا لیکن چھوٹی چھوٹی باتوں پر دو افراد سے جھگڑے شروع ہوکر قبائل تک پہنچ جاتے ہیں‘۔