پاکستان

اراکین قومی اسمبلی کا مفتی عبدالشکور کی حادثے میں وفات کی مناسب تحقیقات کا مطالبہ

حادثے کی تحقیقات کی جانی چاہئیں کیونکہ مفتی عبدالشکور کو دھمکیاں ملنے کی وجہ سے امکان ہے کہ یہ قتل بھی ہوسکتا ہے، اراکین اسمبلی

ٹریفک حادثے میں وفاقی وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور کے انتقال پر اظہار تعزیت کے لیے قومی اسمبلی میں قرارداد منظور کی گئی اور حادثے کی مناسب تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ قرارداد وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے پیش کی، وزیر اعظم شہباز شریف سمیت تمام اراکین اسمبلی نے مرحوم وفاقی وزیر کو خراج عقیدت پیش کیا۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے بعض اراکین نے مطالبہ کیا کہ اس حادثے کی تحقیقات کی جانی چاہئیں کیونکہ مفتی عبدالشکور کو دھمکیاں ملنے کی وجہ سے امکان ہے کہ یہ قتل بھی ہوسکتا ہے، آزاد رکن علی وزیر کی جانب سے اس مطالبے کی دیگر اراکین نے تائید کی۔

تاہم وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ بظاہر یہ ایک ٹریفک حادثہ معلوم ہوتا ہے تاہم انہوں نے ایوان کو یقین دہانی کروائی کہ دیگر امکانات کا جائزہ لینے کے لیے مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔

وزیر صحت عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ مرحوم وفاقی وزیر کو خطرات درپیش تھے لیکن ان کے ساتھ کوئی گارڈ نہیں تھا، کفایت شعاری کی مہم نے ہمیں آسان ہدف بنا دیا ہے، حادثے کے بعد مفتی عبدالشکور کو ہسپتال منتقل کرنے والے پولیس اہلکاروں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک وزیر تھے۔

دریں اثنا پولیس ذرائع نے بتایا کہ کیس کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی جا رہی ہے، جے یو آئی (ف) کے رہنماؤں نے سینیئر پولیس افسران سے ملاقات کی اور واقعے کے بارے میں دریافت کیا تو انہیں بتایا گیا کہ بظاہر یہ ایک حادثہ معلوم ہوتا ہے۔

ذرائع نے مزید کہا کہ جے یو آئی (ف) کے رہنما بشمول شکایت کنندہ قدرت اللہ کیس کی پیروی کر رہے ہیں کیونکہ مرحوم وفاقی وزیر کا اکلوتا بیٹا خصوصی ضروریات کا حامل بچہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مرحوم مفتی عبدالشکور کی گاڑی سے ٹکرانے والی کالے رنگ کی ٹویوٹا ریوو 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلائی جارہی تھی حالانکہ اس علاقے میں رفتار کی حد 80 کلومیٹر ہے، ہائی سیکیورٹی زون ہونے کے باوجود اس علاقے میں تیز رفتاری اور دیگر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر کوئی نظر نہیں رکھی جارہی تھی۔

ذرائع نے بتایا کہ سیف سٹی کے اہلکار سڑکوں پر نصب سی سی ٹی وی کے ذریعے ٹریفک کی خلاف ورزیوں بشمول رفتار کی حد کی نگرانی کرتے ہیں، سیف سٹی کے اہلکاروں نے سڑکوں پر موجود عملے کو فوری طور پر خبردار کیا کہ تیز رفتاری اور ٹریفک سگنل سمیت بڑی خلاف ورزیوں کی صورت میں وہ ایسی گاڑیوں کو روکیں۔

تاہم ذرائع نے بتایا کہ حادثے کے وقت عملہ اس گاڑی کی رفتار کو جانچنے اور سڑک پر موجود عملے کو مطلع کرنے میں ناکام رہا، علاوہ ازیں تیز رفتار گاڑی کو روکنے کے لیے وہاں کوئی پولیس اہلکار موجود نہیں تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ یہ گاڑی جنوبی پنجاب میں پولٹری کے ایک کاروبار کی ملکیت تھی جوکہ ایک بینک سے لیز پر خریدی گئی تھی، گاڑی میں سوار 5 افراد پولٹری کے کاروبار کے ریکوری ایجنٹ تھے اور ڈیوٹی پر اسلام آباد آئے تھے۔

دریں اثنا وزیراعظم نے خواہش ظاہر کی ہے کہ مفتی عبدالشکور مرحوم کو ان کی شاندار اور بے لوث عوامی خدمات کے اعتراف میں ہلال امتیاز سے نوازا جائے اور کابینہ ڈویژن اس حوالے سے باضابطہ طور پر سمری بھی جاری کرے۔

پلوامہ حملے سے متعلق انکشافات سے پاکستان کے مؤقف کی تائید ہوئی، وزیراعظم

اشرف حکیمی کو طلاق کے عوض سابق اہلیہ سے دولت ملنے کا امکان

امریکا کا شام میں داعش کے سینیئر رہنما کو ہلاک کرنے کا دعویٰ