دنیا

سوڈان: یورپی یونین کے سفیر کے گھر پر حملہ، عسکری گروہوں کے مابین جاری لڑائی میں 200 سے زائد ہلاکتیں

فوج اور نیم فوجی دستوں کے درمیان 3 روز سے جاری جنگ کے نتیجے میں ہسپتالوں کو شدید نقصان پہنچا اور طبی سامان اور خوراک کی کمی ہو گئی۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے بتایا کہ سوڈان میں تعینات یورپی یونین کے سفیر ایڈن اوہارا کے خرطوم میں واقع گھر پر حملہ کیا گیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق سوڈان میں فوج اور نیم فوجی دستوں کے درمیان لڑائی میں 200 کے قریب افراد ہلاک اور ایک ہزار 800 افراد زخمی ہوچکے ہیں، 3 روز سے جاری جنگ کے نتیجے میں ہسپتالوں کو شدید نقصان پہنچا اور طبی سامان اور خوراک کی کمی ہو گئی۔

جوزپ بوریل نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’کچھ گھنٹے قبل سوڈان میں یورپی یونین کے سفیر کی رہائش گاہ پر حملہ کیا گیا ہے، سفارتی احاطے اور عملے کی حفاظت بین الاقوامی قانون کے تحت سوڈانی حکام کی بنیادی ذمہ داری ہے‘۔

یورپی یونین کی ترجمان نبیلہ مسرالی نے کہا کہ ایڈن اوہارا اس حملے میں محفوظ رہے ہیں۔

اقوام متحدہ نے اس علاقے میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے اور یورپی یونین سمیت بین الاقوامی اداروں نے بھی اس حوالے سے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

2021 میں بغاوت کے بعد فوجی حکومت قائم کرنے والے 2 جرنیلوں کی افواج کے درمیان ایک ہفتے سے جاری اقتدار کی کشمکش ہفتے کو پرتشدد کارروائیوں میں تبدیل ہوگئی، یہ تنازع سوڈان کے آرمی چیف عبدالفتاح البرہان اور نیم فوجی دستے ریپڈ سپورٹ فورسز کی کمانڈ کرنے والے محمد ہمدان داگلو کے درمیان ہے۔

خرطوم میں دونوں فورسز کے درمیان لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب آر ایس ایف کو فوج میں شامل کرنے کے منصوبے پر برہان اور دیگلو کے درمیان اختلافات ہوئے۔

سوڈان میں اقوام متحدہ کے مشن کے سربراہ وولکر پرتھیس نے سلامتی کونسل کو اجلاس میں بتایا کہ اس تنازع کے دوران کم از کم 185 افراد ہلاک اور 1800 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔

انہوں نے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ ’یہ ایک بہت ہی پیچیدہ صورت حال ہے اس لیے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ معاملے کس کروٹ بیٹھے گا‘۔

قبل ازیں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے دونوں فریقین سے ایک بار پھر فوری طور پر دشمنی ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ مزید کشیدگی ملک اور خطے کے لیے تباہ کن ہو سکتی ہے۔

سوڈان میں طبی ماہرین نے دونوں طرف سے تقریباً 100 شہریوں اور درجنوں جنگجوؤں کی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے لیکن ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ بتائی جارہی ہے کیونکہ بہت سے زخمی ہسپتالوں تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔

سرکاری ڈاکٹروں کی یونین نے خبردار کیا کہ اس لڑائی نے خرطوم اور دیگر شہروں کے متعدد ہسپتالوں کو بھاری نقصان پہنچایا ہے، جن میں سے کچھ مکمل طور پر غیرفعال ہوچکے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پہلے ہی متنبہ کیا جاچکا ہے کہ خرطوم کے 9 ہسپتالوں میں کئی زخمی شہریوں کو علاج کو لایا جارہا ہے لیکن وہاں اہم طبی آلات سمیت دیگر ضروری سامان ختم ہو چکا ہے۔

دارفور کے مغربی علاقے میں عالمی طبی امدادی تنظیم ’ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز‘ نے اطلاع دی ہے کہ شمالی دارفور ریاست میں واقع واحد ہسپتال میں 136 زخمی مریض داخل کروائے جا چکے ہیں۔

پلوامہ حملے سے متعلق انکشافات سے پاکستان کے مؤقف کی تائید ہوئی، وزیراعظم

اشرف حکیمی کو طلاق کے عوض سابق اہلیہ سے دولت ملنے کا امکان

امریکا کا شام میں داعش کے سینیئر رہنما کو ہلاک کرنے کا دعویٰ