عید پر لفظی گولہ باری کی بجائے چاہتوں کے پیامبر بنیں
جب عید آتی ہے تو ماں جی اداس ہو جاتیں میں پوچھتا ماں جی آپ اداس کیوں ہیں آج تو عید کا دن ہے؟ وہ کہتیں پتر عید تو عیداں والیاں دی ہوندی اے (عید تو عید والوں کے دم سے ہوتی ہے) انہیں شاید اپنے جواں بیٹے کی یاد آجاتی ہے جو دارفانی سے کوچ کر گیا مگر اگلے ہی لمحے وہ آنسو صاف کر کے کہتیں ’بیٹا عید کی اسلام میں بہت اہم حیثیت حاصل ہے آپ اپنی ذاتی زندگی میں جتنے بھی کٹھن حالات سے گزر رہے ہوں غم کے پہاڑ ٹوٹے ہوں، صبر کا دامن تھام کر عید کو ایک تہوار کے طور پر منانا ہمارا مذہبی اور سماجی فریضہ ہے‘۔
عید محض چھٹی یا بسیار خوری کا نام نہیں ہے یہ دوسروں میں خوشیاں بانٹنے کا ذریعہ بھی ہے اس موقع کو ہمیں اپنے عزیزو اقارب اور دوستوں کی دل جوئی کرنے میں استعمال کرنا چاہیے، ہمیں لاحق غم جاناں اور غم دوراں تو چلتے ہی رہیں گے۔ بقول خواجہ غلام فرید صاحب
اگر میرا محبوب اسی میں خوش ہے کہ دکھوں میں گھرا رہوں
تو میں اپنی خوشیوں کو آگ پہ رکھنا پسند کرتا ہوں
اے فرید کاش مجھے اپنا محبوب کہیں مل جائے
تو میں رو رو کر اسے اپنے دل کی کہانی سناؤں
(ترجمہ)
آج حال دل کہنے کی خواہش رکھنے والے تو بہت ہیں مگر احوال سننے والے میسر نہیں اس کی وجہ بھی ہم ہیں، جب سے ہم قوت گویائی سے آشنا ہوئے ہیں ہماری حسِ سماع متاثر ہوگئی ہے ہمیں اپنی آواز اپنے نظریات اور اپنا آپ دل آویز محسوس ہوتا ہے کسی کی دلائل سے پُر بات ہمیں سوچنے پر نہیں اکساتی کیونکہ ہم اگلے کو سننے کے بجائے اس کے جواب کی تلاش میں گھوڑے دوڑا رہے ہوتے ہیں۔
ہم عدم برداشت کا شکار تو شروع سے ہیں مگر ہم انتہا کے تنگ نظر بھی ہوچکے ہیں ہمیں وہی درست دکھائی دیتا ہے جو ہم کہہ یا سوچ رہے ہوتے ہیں۔ ادھر آپ یا تو ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے مخالف بیچ میں رہ جانے والے چکی کے پاٹوں میں پس کر رہ جاتے ہیں۔ معاشی اور معاشرتی تفریق بڑھنے کے ساتھ ہی رویوں میں شدت پسندی کی لہر اٹھتی ہے تو معاشرے دو یا دو سے زیادہ واضح گروہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔
لافانی شاعر ہومر نے بھی اپنی ایک تحریر میں ایک دیس کی کہانی بیان کی جہاں لوگوں کی رائے دو انتہاؤں پر تھی، ایک حصے میں دن دکھائی دیتا تو دوسری طرف رات۔۔۔
اپنے معاشرے پر نظریں دوڑائیں تو ہم بھی دو گروہوں میں بٹ چکے ہیں دونوں کے مابین نفرت انتہا کو پہنچ چکی ہے رواداری اور متانت کا ذکر ہمارے گھروں اور معاشرے سے غائب ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ہمیں ٹھیک سے نیند نہیں آتی اگر اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیا جائے کیونکہ اسے ہی بہادری قرار دے دیا گیا ہے۔ نرم خوئی اور صلح جوئی کو بزدلی سے تعبیر کیا جاتا ہے حالانکہ کہ ہمارا دین ہمیں نرمی، برداشت اور درگزر کا درس دیتا ہے مگر ہم جب تک سب کو گھر نہیں پہنچا آتے دم نہیں لیتے۔
ہم نفرت کے دریا میں انتہاؤں کی کشتی پر سوار ہیں، ہمیں حالات کی سنگینی سے کوئی غرض نہیں ہم تاریخ کے چوراہے پر اپنے گندے کپڑے دھونے میں مشغول ہیں۔ خونی رشتے، دوستیاں اور رشتے داریاں نفرت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، جس سے بھی کوئی بات کی جائے چند ہی جملوں کے بعد اگر ہمارے یا سننے والے کے منہ سے جھاگ نہ نکلنے لگے یا نوبت ہاتھا پائی تک نہ آجائے تو ہمیں مزہ نہیں آتا۔ اب کبھی افطاری، شادی بیاہ ہو یا دوستوں کی محفل میں تلخی ایام کو بھلانے کی خاطر مل بیٹھتے ہیں تو کپڑے جھاڑ کر ایسے اٹھتے ہیں جیسے دوبارہ روز قیامت ہی ملاقات ہوگی۔
اس کے سوا بھی جس بزم میں جاؤ وہاں تم ہمارے حق میں ہو یا خلاف کی گردان کے سوا آپ کوئی بات نہیں کرسکتے۔ سوشل میڈیا پر گالم گلوج کی یلغار کی کہانی بہت پرانی ہوچکی اب دونوں اطراف سے ننگی مغلظات کا ایسا مقابلہ برپا ہوتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ سنا کرتے تھے کہ تلوار کے گھاؤ بھر جاتے ہیں مگر زبان کے گھاؤ نہیں بھرتے یہ بات سچ ہوتے بھی دیکھ لی ہے۔
ہمارا معاشرہ صدیوں سے پیاز کے چھلکے کی پرتوں کی مانند تہ در تہ تفریق سے اٹا ہوا تھا کہیں زبان، رنگ، نسل کے جھگڑے،کہیں ذات اور فرقے کی گروہ بندیاں۔ اب سیاسی جتھے داریوں کی وجہ سے رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی ہے مختلف سیاسی نظریات رکھنا جمہوریت کا حسن کہلاتا آیا ہے مگر مخالف کے بیانیے کا مدلل انداز میں جواب دینے کی بجائے ہم سب کے لہجے میں ایک درشتدگی اور جھلاہٹ آگئی ہے۔
سیاست نے دلوں کے بیچ ایسی لکیر کھینچ دی ہے جسے مندمل ہونے میں عشرے لگیں گے، اپنے اپنے سیاسی دیوتاؤں کے لیے تلواریں سونتنے والے اس بات سے بےخبر ہیں کہ وہ اس خطے میں ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس ہی ثابت ہوتے آئے ہیں۔ مگر تشویش ناک امر یہ ہے کہ نفرتیں اس انتہا کو جاپہنچی ہیں کہ خونی رشتے سلام دعا سے عاری ہوچکے ہیں اور یاریاں دوستیاں سیاسی محاز آرائی کی نظر ہو چکی ہیں۔
مگر قدرت سال میں چند ایسے مواقع ضرور مہیا کرتی ہے کہ ہم دلوں کی نفرتوں کے زہر کو چاہتوں کی چاشنی سے مارنے کی کوشش کریں، آج وہی موقع ہے، عید کا دن ہے کسی کے من میں ناراضیوں کی سیاہی چڑھ چکی ہے تو اسے درگزر کے پانی سے دھوڈالیں۔ عیدین مذہبی ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ معاشرتی سدھار کا تہوار بھی ہیں، یہ عید پچھلے سالوں کی عیدوں سے کافی کٹھن ہے، تمام ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اس سال پاکستان میں لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے آگئے ہیں، متوسط طبقہ اور سفید پوش عوام کی کمر ٹوٹ کر رہ گئی ہے وہ یقیناً اس عید پر ڈپریشن کا شکار ہیں اپنے خاندان اور گلی محلے میں ایسے حضرات کی امداد ایسے کریں کہ وہ آج کے دن کھلکھلا کر مسکرا سکیں، یہی انسانیت کا ثبوت ہے۔
ہو سکے تو نے نئے کھانوں کے ساتھ اسٹیٹس اور تصویریں اپ لوڈ کرنے سے پرہیز کیجیے گا ہم فرانسیسی تو چھوڑیے سری لنکن بھی نہیں جو روٹی کی بجائے کیک کی تشہیری مہمات پر احتجاج کرنے نکل کھڑے ہوں مگر ہماری قوم جو اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر مرجانے کے فن میں طاق ہے وہ یہ سب دیکھ کر کُڑھے گی ضرور۔
’تم چور تم چور‘ کے جھگڑے میں پڑنے سے فائدے کی بجائے خسارہ ہی خسارہ ہے، ذہنی سکون ایسا سرمایہ ہے جو ہلکی سی آنچ سے پگھلنا شروع ہو جاتا ہے۔ اپنے اس سرمائے کو ایسے ہی مت لٹائیں، کسی بھی سیاست دان یا سیاسی جماعت کی خاطر دوستیاں اور رشتے داریاں خراب مت کریں۔ یقین کریں کسی کو بھی آپ کی پروا نہیں یہ اقتدار کا کھیل برصغیر پاک وہند میں صدیوں سے جاری ہے۔
جس بھی دوست یا عزیز سے آپ خفا ہیں اس کو راضی کرنے یا منانے میں دیر مت کریں آج کا دن ایک سنہری موقع ہے کہ ہم اپنی اناؤں کے بتوں کو اپنے ہاتھوں سے ڈھا دیں۔ ہم جو ہر بات پر اتنے اکڑتے ہیں، ہماری حقیقت کچھ بھی نہیں بقول شاعر
کجھ وساہ نہ ساہ آئے دا، مان کہیا فیر کرنا
(کوئی بھروسہ نہیں کہ اگلا سانس آئے یا نہیں تو پھر غرور کس بات کا)
ہمیں چاہیے کہ ہوسکے تو جتنی خوشیاں بانٹ سکیں وہ بانٹیں اپنوں کو کبھی زیادہ دیر ناراض مت رکھیں۔ آج کے مبارک دن اپنے پیاروں کو منانے جائیں اور ہاں مٹھائی کا ڈبہ لے جانا مت بھولیں ماحول پر جو تلخیوں کی دھند چھائی ہوئی ہے اسے کم کریں شاید تھوڑی سی رواداری اور محبت سے ہم اس بہتری کی جانب سفر کا آغاز کر سکیں جس کی ہم سب تمنا دل میں رکھتے ہیں۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس بات سے خوش ہو کر آپ کو ایسے نوازیں گے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ اللہ کو صلہ رحمی اتنی پسند ہے کہ اللّٰہ اپنے فضل سے صلہ رحم شخص کی عمر دراز کر دیتا ہے۔
فضل کریں تے بخشے جاون میں جئے منہ کالے
عدل کریں تے تھر تھر کمبن اُچیاں شاناں والے
(اے میرے پروردگار اگر تو اپنی نظر کرم کرے تو مجھ سے خطا کار بھی بخشے جائیں، عدل کی بات ہو تو زاہد و پرہیزگار بھی خوف سے کانپ اٹھیں)
سلمان احمد صوفی کا تعلق بہاولپور سے ہے۔ انہوں نے شعبہ اردو میں ماسٹرز اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں ایم فل کیا ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے لیکچرار ہیں۔ وہ شاعر بھی ہیں اور لکھنے اور کتابیں پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔