دنیا

جرمنی نے آخری 3 جوہری پلانٹس بھی بند کردیے

یورپ کی سب سے بڑی معیشت سمجھا جانے والا ملک جرمنی 2002 سے جوہری ری ایکٹرز سے توانائی کی پیداوار ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

یوکرین جنگ کے سبب پیدا ہونے والے توانائی بحران پر قابو پانے اور فوسل فیول سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کوشاں جرمنی نے اپنے آخری 3 جوہری ری ایکٹرز کو بھی بند کر دیا۔

ڈان اخبار میں شائع خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق جرمنی اپنی جوہری صلاحیت کا خاتمہ ایسے وقت میں کررہا ہے جب بہت سے مغربی ممالک جوہری توانائی میں اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کر رہے ہیں۔

یورپ کی سب سے بڑی معیشت سمجھا جانے والا ملک جرمنی 2002 سے جوہری ری ایکٹرز سے توانائی کی پیداوار کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن جاپان میں فوکوشیما کے جوہری حادثے کے بعد 2011 میں سابق چانسلر انجیلا مرکل نے ان کوششوں کو تیزی سے آگے بڑھایا۔

جرمنی میں جوہری پلانٹس کو بند کرنے کا نعرہ مقبول رہا ہے اور اس کے لیے اینٹی نیوکلیئر تحریک چلائی گئی۔ جرمن شہری سرد جنگ کے تنازعے اور یوکرین میں چرنوبل حادثے سے پھیلنے والی ایٹمی تباہی کے خوف کا شکار رہے ہیں۔

جرمن وزیر ماحولیات نے رواں ہفتے جاپان میں جی سیون ممالک کے وزرا کے اجلاس سے قبل جاپان کے اس بدقسمت علاقے کا دورہ کیا جہاں ایٹمی پلانٹ سے تابکاری پھیلی تھی، اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ’جوہری توانائی کے خطرات بالآخر قابو سے باہر ہوجاتے ہیں‘۔

واضح رہے کہ توانائی کے بحران نے جرمنی میں جوہری توانائی سے دستبرداری کے عمل میں تاخیر کے مطالبات میں اضافہ کردیا ہے۔

جوہری توانائی کی مخالف تحریک ’گرین پیس‘ نے برلن کے برانڈنبرگ گیٹ پر جشن منانے کے لیے پارٹی کا اہتمام کیا، اس موقع پر تحریک کی جانب سے اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’بالآخر جوہری توانائی قصہ پارینہ بن گئی، آئیں 15 اپریل کو ایک یادگار دن کے طور پر منائیں‘۔

اس کے برعکس قدامت پسند نظریات کا حامل روزنامہ ’فاز‘ کی گزشتہ روز کے ایڈیشن کی سرخی میں ’شکریہ، جوہری توانائی‘ درج تھا کیونکہ اخبار میں ان فوائد کی فہرست شائع کی گئی تھی جو اخبار کے مطابق جوہری توانائی نے جرمنی کو گزشتہ کئی برسوں تک پہنچائے۔

توانائی کے بحران کی پیچیدہ صورتحال نے جرمنی میں جوہری توانائی سے دستبرادی میں تاخیر کی اپیلوں میں اضافہ کیا ہے، جرمن چیمبرز آف کامرس کے صدر پیٹر ایڈریان نے ’روزنامہ رائنشے پوسٹ‘ کو بتایا کہ ’توانائی کی ممکنہ قلت اور بڑھتی قیمتوں کے پیش نظر جرمنی کو توانائی کی فراہمی بڑھانی ہوگی اور اسے مزید محدود نہیں کرنا ہے۔

دریں اثنا باویریا کے قدامت پسند رہنما مارکس سوڈر نے ’فوکس آن لائن ویب سائٹ‘ کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ جوہری پلانٹس قائم رہیں اور 3 پلانٹس کو ریزرو میں رکھا جائے۔

جوہری توانائی سے دستبرداری کے لیے کوئلے کے استعمال میں اضافے پر بیرونی مبصرین بھی جرمنی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، اکتوبر میں موسمیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ نے اس اقدام کو ’غلطی‘ قرار دیا تھا۔

حکومت و اپوزیشن میں جمود توڑنے کیلئے سراج الحق کی شہباز شریف، عمران خان سے ملاقات

آج جس مقام پر ہوں اس میں والد یا فیملی کا کوئی کردار نہیں، مومل شیخ

مشرقی یوکرین میں روسی حملے سے 11 افراد ہلاک