موٹرسائیکل کی سواری، میں صدقے میں واری!
انتباہ: اس تحریر کا پڑھنا موٹرسائیکل چلانے والے افراد کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
تتیّا ایک ڈنک مارنے والی چھوٹی پھرتیلی سی مکھی ہے جس کے ڈنک سے جسم سوج جاتا ہے۔ تتّیا ایک چھوٹی تیز مرچ کو بھی کہتے ہیں جو زبان میں سوزش پیدا کردیتی ہے۔ اگر ان دونوں ’تتیّاؤں‘ کو ملا دیا جائے تو ان میں ایک عدد انجن، دو عدد پہیے اور اوپر ایک گدی لگا کر اگر ایک شخص کو سواری کی اجازت دی جائے تو یقین مانیے اس سواری کا نام موٹرسائیکل ہی ہوگا۔
اس کو چلانے والے شخص کی بردباری اور اشرف المخلوق ہونے کا ثبوت بےشک آپ قسمیں اٹھا کر بھی دیں، سواری پر بیٹھتے ہی تمام تتّیا صفات اِن میں عود کر آجائیں گی، حواسِ خمسہ معطل ہوجائیں گے اور ایک جن اپنے خواصِ خبیثا کے ہمراہ ان میں حلول کرجائے گا۔ اب یہ سواری جہاں سے اور جس انداز سے گزرے گی، آپ کے دماغ پر کوفت کی سوجن، مادری زبان میں سوزش اور ہاتھ میں کھجلی ضرور کرے گی۔
اگر آپ ماں کی دعا لیے بغیر صرف موبائل فون ہی لےکر گھر سے باہر نکلے ہیں تو آپ دور ہی سے اس سواری کے سوار کو بکرے کی وہ ماں نظر آئیں گے جس کی اب خبر نہیں۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی میرے ایک جاننے والے بخار کی حالت میں پیدل ہی گھر سے نزدیک ایک ڈاکٹر کی کلینک کی طرف رواں تھے کہ یہ سواری ایک موڑ سے نمودار ہوئی اور سوار موبائل کا طالب ہوا۔ یہ بیچارے نقاہت میں گویا ہوئے کہ ’بھائی چھوڑ دو، میری طبیعت خراب ہے‘۔ جواب آیا کہ ’جلدی دے، بخار میں بغیر پانی کے گولی کھائے گا کیا؟‘
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ تقریباً 25 سے 30 لاکھ موٹرسائیکلیں تیار کی جاتی ہیں۔ یہ موٹرسائیکل عموماً متوسط یا نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے ایک باعزت، مؤثر اور سستی سواری تصور کی جاتی ہے۔ چاہے تو نقد، قسطوں پر یا پھر سیکنڈ ہینڈ خرید لیجیے۔ کچھ دل جلے چوری کرکے اور کچھ جنم جلے چھین کر اسے حاصل کرتے ہیں، تاہم موٹرسائیکل باآسانی دستیاب ہے۔ اگرچہ بڑھتی ہوئی قیمتوں نے اس کی خریداری کو مشکل بنادیا ہے لیکن یہ اب بھی سب سے زیادہ مقبول اور منظور سواری ہے۔
اس سواری کے کارآمد ہونے کے ذکر کے ساتھ اس کے سوار کے بجنگ آمد بلکہ بجنگ آمادہ رویے کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ موٹرسائیکل کو چھوٹی سے چھوٹی جگہ سے گزارنا، رکاوٹیں اور فٹ پاتھ کامیابی سے عبور کرنا، لہروں کے زاویہ پر ایک مخمور سانپ کی چال سے سڑک پر گزرنا، انسانی فہم میں نہ آنے والا وزن، سامان اور سواریاں ’فٹ‘ کرلینا، گھر والوں سے چھپ کر اور نوبیاہتا جوڑے میں نزدیکی اور ’چپکاچپکی‘ کے لیے استعمال کرنا، اکثر اوقات رانگ وے اور ون ویلنگ کے باعث اپنے خالقِ حقیقی سے جلد ملنے کا ذریعہ بنانا، یہ سب سراسر اس کے سوار کی ذہانت اور کرتوت کا ثبوت ہوتے ہیں۔
خدا گواہ ہے کہ موٹرسائیکل پر 2 میاں بیوی، 2 بچے ٹنکی پر، 2 ماں باپ کے درمیان دبکے ہوئے اور ایک ماں کی گود میں موجود معصوم نوزائیدہ، یعنی کُل ملا کر 7 افراد اور توازن برقرار رکھنے کے لیے کیریئر پر رکھی بڑی سی گٹھری کو تو ہم نے بچشمِ خود کشاں کشاں رواں دیکھا ہے۔ موٹرسائیکل والے کے اعتماد اور ایمان کو دیکھتے ہوئے ہمیں پورا یقین ہے کہ مزید سامان اور 2 اور سواریوں کی جگہ بنائی جاسکتی تھی۔ اس منظر سے پہلے زیادہ سے زیادہ افراد کے موٹرسائیکل پر بیٹھنے کی ہماری آخری یاد ان 4 افراد کی تھی جنہیں ہم نے موت کے کنویں میں ایک موٹرسائیکل پر اکٹھے سوار دیکھا تھا۔
کسی اور کو کیا دوش دینا، نوجوانی میں بکرے اوردنبے، دو ٹانگیں ایک طرف، دو ٹانگیں دوسری طرف اور کلیجی، چانپیں اور کپورے (باحیا قارئین اسے ’دھڑ‘ پڑھ سکتے ہیں) موٹرسائیکل کے پائلٹ اور کوپائلٹ کے درمیان فِٹ کرکے بکرامنڈی سے گھر لانے کی مہم تو ہم نے بھی سرانجام دی ہے۔ راستے بھر ’ہنسل اور گریٹل‘ کی کہانی کی طرح ہمارا بکرا اپنی مینگنیاں بطورِ نشانی، وقفے وقفے اور محتاط فاصلے سے سائنسی انداز میں ’نچھاور‘ کرتا رہا۔ ہمارے ساتھ بطورِ سیکیورٹی چلنے والی 2 موٹرسائیکلیں جن کی کمان ہمارے چھوٹے چچا کررہے تھے، جب رش کے باعث دور رہ گئیں تو کہکشاں کے انہیں ستاروں سے رہنمائی حاصل کرتی موٹرسائیکلیں ہمارے دوست کے گھر آن پہنچیں۔
ہم اُس وقت تک اپنی اس مہم جوئی پر اکڑتے رہے جب تک کچھ سال پہلے ہم نے جی ٹی روڈ پر ایک موٹرسائیکل پر گائے کو ٹرانسپورٹ ہوتے ہوئے نہیں دیکھ لیا۔ گائے کا منہ اور اس کے ’گٹرسسٹم‘ کو کھلا چھوڑ کر، ٹانگوں کو فولڈ کرکے ایک بڑی سی چادر میں ’ملفوف‘ کیا گیا اور احتیاط سے رسی کی مدد سے باندھ کر موٹرسائیکل پر پائلٹ کے پیچھے ’لوڈ‘ کردیا گیا تھا جو اُسے لیے فراٹے بھرتے اور یہ گاتے چلا جارہا تھا کہ ’گائے‘ گی دنیا گیت میرے۔۔۔!
ماسوائے چند ذی شعور افراد کے جو آپ کو ہیلمٹ پہنے نظر آئیں گے، اَن گنت موٹرسائیکل سوار ہیلمٹ کو اپنی گود میں ٹانگوں کے درمیان (باحیا قارئین اسے پہلوؤں کے درمیان پڑھ سکتے ہیں) ٹنکی پر رکھ کر سڑک پر سرگرداں نظر آتے ہیں۔ قیاس ہے کہ ایسے افراد اپنے سر سے زیادہ کسی اور عضو جسم کو قیمتی گردانتے ہیں اور اُسے ’ناقابلِ مرمت‘ سمجھتے ہوئے دورانِ سفر اس کی حفاظت کو زیادہ فوقیت دیتے ہیں۔ سر کا کیا ہے؟ وہ تو سِل ہی جائے گا۔ موٹرسائیکل چلانے والے حضرات سے مؤدبانہ التماس ہے کہ دورانِ سفر ہیلمٹ سر پر ہی پہنیں۔ جان ہے تو پھر ہی بچوں کا امکان ہے!
ہم نے کئی بار اللہ کے بنائے 4 ٹانگوں اور ایک دُم والے ’ک‘ کو سڑک عبور کرتے وقت رکتے، جھجھکتے دیکھا ہے لیکن 2 پہیوں کی موٹر پر سوار 2 ٹانگوں والے اکثر حضرات سڑک پر مڑتے یا اسے عبور کرتے وقت کسی کو درخوراعتنا نہیں بخشتے۔ تاہم کچھ شرفا یقیناً ایک ہاتھ لہرا کر یا پھر زرد اشارہ جلا کر مڑنے کا عندیہ دیتے پائے گئے ہیں۔ حال ہی میں اس سلسلے میں ایک جدّت دیکھنے میں آئی ہے کہ موٹرسائیکل سوار حضرات سر کا خفیف اشارہ کرتے ہوئے اس کو ذرا سا اس جانب موڑ دیتے ہیں جدھر مابدولت کو موٹرسائیکل موڑنا مقصود ہو۔
ایک صاحب نے تو حد ہی کردی، جب انہوں نے ٹیڑھی گردن کا زاویہ، جو موبائل فون کو گردن اور کندھے کے درمیان دبوچے رکھنے کے لیے اور موٹرسائیکل چلاتے وقت زندگی کو داؤ پر لگا کر کسی انتہائی اہم گفتگو کرنے کے لیے قائم کر رکھا تھا، کمالِ فن سے برقرار رکھا اور ایک ٹانگ لمبی کرکے اُس سمت اٹھا دی جدھر مڑنے کی چاہت تھی۔ اب یہ سڑک پر پیچھے آنے والے ڈرائیور حضرات کی ذہانت کا امتحان ہے کہ وہ اس پکار پر لبیک کہیں اور سوار کو حسبِ ٹانگ جگہ دے دیں۔
موٹرسائیکل سوار حضرات کے لاکھ باعثِ تنقید مسائل سہی تاہم ان کی ایک خوبی ملک گیر یکسانیت رکھتی ہے جس کا براہِ راست تعلق چادر اور چاردیواری کو دو سواری یعنی موٹرسائیکل پر قائم رکھنا ہے۔۔۔ مجال ہے کہ کوئی لڑکی، خاتون، خالہ یا اماں جی موٹرسائیکل پر سوار رواں دواں ہوں اور ان کی چادر، عبایا، برقعہ یا دوپٹہ اپنی حدود سے تجاوز کرکے موٹرسائیکل کے پہیوں سے اٹھکیلیاں کرنے کی کوشش میں مصروف نہ ہو اور کوئی نہ کوئی دوسرے موٹرسائیکل سوار حضرت اس کی جانب توجہ دلاؤ نوٹس جاری نہ فرمائیں۔
کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے کہ سڑک پر ہم نے ایک ایسی ہی خاتون کو فراٹے بھرتی موٹرسائیکل پر جاتے دیکھا۔ ان کی گلابی چادر موٹرسائیکل کے پچھلے پہیے کا غلاف بنی پیراشوٹ کی مانند ہوا سے بھری جارہی تھی کہ پاس سے گزرنے والے دوسرے صاحبِ موٹرسائیکل، جن کی اپنی 3 گز کی گھیردار شلوار کسی بھی وقت ان کی اپنی ہی موٹرسائیکل کے پہیے سے بغلگیر ہونے والی تھی، پہلے ہاتھ کے اشارے سے پھر ہیلمٹ کی اتنی کھڑکی جس سے ہونٹ باہر آجائیں، کھول کر چیخے کہ ’باجی یہ چادر اوپر کرلیں ورنہ بائیک میں آجائے گی‘۔ ایسے نفیس اور ہر پرائی باجی پر نظر رکھنے والے بھائی، بہنوں کو کہاں ملیں گے؟
موٹرسائیکل پر رانگ وے آنا ایک قبیح عادت سی بن چکی ہے جس میں نوجوان اور بزرگ سب مبتلا ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر غلط سمت سے آنے والے موٹرسائیکل سوار کو کچھ کہہ دیں یا اس کا راستہ روک دیں تو وہ آپ کو شدت اور غور سے گھورے گا اور دیر تک گھورے گا۔ اگر اس ’غور‘ کی چوتھائی شدت صحیح راستہ لینے میں صرف ہو تو اس لڑائی کی ضرورت ہی نہ رہے۔ ہمارے ایک دوست کا ایسے ہی ایک رانگ وے آنے والے موٹرسائیکل سوار صاحب سے میچ پڑ گیا۔ انہوں نے موٹرسائیکل کا راستہ اپنی گاڑی سے روکا اور دروازے کا شیشہ اتارکر سرزنش کی۔ پہلے تو صاحبِ موٹرسائیکل نے انہیں گھورا، پھر کار سوار نے انہیں گھورا اور دونوں اس وقت تک ایک دوسرے کو گھورتے رہے جب تک نظر گالی نہ بن گئی۔
چونکہ ہم خود بہت عرصے تک موٹرسائیکل سڑکوں پر دوڑاتے بلکہ لہراتے رہے ہیں، اس لیے یہاں بیان کی گئی ہر حرکت میں ہماری بھی شرکت رہی ہے۔ تاہم ضروری ہے کہ موٹرسائیکل سواروں کی اتنی پیار بھری ہرزہ سرائی کے بعد سچی مدح سرائی بھی کی جائے۔ یقیناً ایسے بیسیوں موٹرسائیکل سوار سڑکوں پر دیکھے جاسکتے ہیں جو قانون کے مطابق خراماں خراماں سڑک کے انتہائی بائیں جانب، ہیلمٹ پہنے، ’ہم چلے تو ہمارے سنگ سنگ نظارے چلے‘ گنگناتے ہوئے رواں دواں ہوتے ہیں۔
رات ہو تو ان کی موٹرسائیکل بھی لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ ہوتی ہے۔ نمبرپلیٹ اور دائیں بائیں دیکھنے کے شیشے لگے ہوتے ہیں۔ ایسے قابلِ احترام موٹرسائیکل سوار حضرات کو دیکھ کر ہی وہ کوفت کم ہوتی ہے جو اوپر ذکر کیے گئے موٹرسائیکل سواروں کو دیکھ کر جنم لیتی ہے جو سڑک پر ہر طرف بغیر کسی قانون، کسی کی یا اپنی جان اور موٹرسائیکل سوار برادری کا مان رکھے بغیر ایک ایسے تتّیے کی طرح اڑتے پھرتے ہیں جس کی دُم پر ہر دم آگ لگی ہو!
لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی موٹرسائیکل سواری کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔ خواتین ویسے بھی قانون کا زیادہ احترام کرتی ہیں اور تمام حفاظتی تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتی ہیں۔
چند دن پہلے ہی ہم نے صبح صبح مارننگ واک سے لوٹتے وقت اپنے ہمسائے کی منجھلی بیٹی کو موٹرسائیکل لےکر دفتر کے لیے نکلتے ہوئے دیکھا۔ پہلے تو اس نے کسی کہنہ مشق موٹرسائیکل والے کی طرح اس پر بیٹھ کر اور اسے دائیں بائیں ہلاکر ٹنکی میں پیٹرول کی میسر مقدار کا اندازہ لگایا، پھر ’چوک‘ کو ہلاکر انجن کو پیٹرول کی فراہمی کا یقین کیا، موٹرسائیکل کے ٹائروں پر ایک ناقدانہ نظر ڈالی اور کِک مار کر موٹرسائیکل اسٹارٹ کرلی۔ پیشتر اس کے کہ وہ روانہ ہوتی، ہم نے ذرا با آواز بلند کہا کہ ’بیٹی ہیلمٹ پہننا بھول گئیں؟‘ سر پر نائکی کی کیپ اور سن گلاسز سیٹ کرتے ہوئے بولیں، ’انکل نیلا ہیلمٹ اس سوٹ کے ساتھ نہیں جائے گا۔۔۔‘ اور کھٹ سے گیئر ڈال کر موٹرسائیکل آگے بڑھادی!
خالد محمود ناصر ہیومن ریسورس سے وابستہ ہیں۔ اس شعبہ میں ایم ایس کے ساتھ ساتھ ماس کمیونیکیشن میں بھی ماسٹرز کی ڈگری رکھتے ہیں۔ مختلف النوع موضوعات پر ہلکے پھلکے انداز میں اکثر قلمکاریاں کرتے رہتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔