دیوسائی کی دو گمنام جڑواں جھیلوں کی کھوج
یہ دلکش الفاظ سنتے ہی خیال کی سواری بے اختیار اس سر زمین کے سفر کو نکل پڑتی ہے جو دل کشی اور رنگینی کی الگ ہی دنیا ہے۔ ایسی دنیا جو سال کا بیشتر حصہ غیر آباد رہتی ہے یہاں تک کہ دیوسائی کے جفاکش ریچھ بھی زیر زمین چلے جاتے ہیں۔
یہ وہ حصہ ہے جہاں موسم گرما کے 3 ماہ چہل پہل رہتی ہے اور موسم سرما میں صرف وحشت کا راج ہوتا ہے لیکن 3 ماہ کی زندگی اس خطے کو وہ رنگ پہناتی ہے کہ باقی کی ویرانی کا مداوا ہوجاتا ہے۔
موسم گرما میں جب میدانی علاقے سخت گرمی سے جل رہے ہوتے ہیں اس وقت دیوسائی کا موسم سحر انگیز رنگوں کے ساتھ ایک دل فریب قطعہ زمین میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ایسا قطعہ جہاں رات کو پریاں اترتی ہیں، ایسا قطعہ جہاں دن کو ایسے حسین مناظر بکھرتے ہیں جو روح کو نئی زندگی بخشتے ہیں، ایسا قطعہ جہاں موسم برسات کی جھڑی لگ جائے تو ہر طرف جل ترنگ بج اٹھتے ہیں، ایسا قطعہ جہاں دھوپ کی تمازت بدن کو گدگداتی ہے، ایسا قطعہ جو باقی دنیا سے قطعی الگ محسوس ہوتا ہے اور یہ ایسا اپنے موسموں کی وجہ سے، اپنے طبعی خدوخال کی وجہ سے، اپنے لمحہ بہ لمحہ بدلتے رنگوں کی وجہ سے، منفرد پھولوں کی وجہ سے، ان پھولوں کی ایسی خوشبو کی وجہ سے جو دنیا کے کسی عطر میں نہیں ملے گی۔
482 مربع کلومیٹر کے وسیع و عریض رقبے پر محیط دنیا کی دوسری بلند ترین سطح مرتفع دیوسائی کو اگر جھیلوں کا گھر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ سلسلہ کوہِ قراقرم اور سلسلہ کوہِ ہمالیہ کے درمیان واقع یہ میدان نباتاتی عجائب گھر ہونے کے ساتھ ساتھ اندازاً 30 سے زائد جھیلوں کا مسکن بھی ہے جن میں سے بیشتر تاحال پردہ گمنامی میں ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہم کوہ نوردوں کے ہاتھوں چند جھیلیں پردہِ گمنامی سے نکل کر دنیا کے سامنے آچکی ہیں اور ان کا سلسلہ جاری ہے اور ان شااللہ جاری بھی رہے گا۔ اسی سلسلے کو برقرار رکھتے ہوئے دیوسائی کے وسیع و عریض میدانوں میں کھوج لگا کر اگست 2022ء میں 2 نئی جھیلوں کی رونمائی کا موقع ملا۔
2 نئی جڑواں جھیلوں کی تلاش میں ہم 14 اگست کو دیوسائی میں واقع مشہور و معروف شیوسر جھیل کے کنارے قریبی دوست دولت خان کی کیمپ سائٹ پر خیمہ فروش ہوئے۔ رات بھر دولت خان اور ہمایوں کے ساتھ مل بیٹھ کر چائے نوشی کرتے ہوئے جھیلوں تک رسائی کا پروگرام تشکیل دیا۔
ہم 3 کوہ نوردوں کے ساتھ 2 مقامی دوست دولت خان اور فدا علی سلطانی بھی سفر کے لیے تیار ہوئے۔ رہنمائی کے لیے ڈپارٹمنٹ نیشنل پارک کے ایک اہلکار کو بھی ساتھ لے لیا کہ شاید کہیں کوئی ریچھ دکھائی دے اور پھر ہمیں نیشنل پارک کے اس دوست اہلکار کی مدد بھی لینی پڑے۔
دیوسائی طرح طرح کے درندوں چرندوں کی آماج گاہ ہے لہذا انسان جب بھی ان کی آماج گاہ جانے کا قصد کریں تو بہتر ہے کہ علاقے کے خدوخال کی بھرپور چھان بین کرلی جائے۔ ریچھ کے علاوہ یہاں مارموٹ (جسے مقامی زبان میں ترُشونہ کہتے ہیں) تبتی بھیڑیا، لال لومڑی، ہمالین آئی بیکس، اڑیال اور برفانی چیتے کے علاوہ پردیس سے آئے پرندے بھی ہوتے ہیں جن میں گولڈن ایگل، ڈاڑھی والا عقاب اور فیلکن قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد اقسام کی قیمتی اور نایاب جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ براستہ سکردو اور براستہ استور بھی دیوسائی جایا جاسکتا ہے۔ راستہ نیشنل پارک کے تقدس کو قائم رکھتے ہوئے کچا ہے لہذا دیوسائی کی تسخیر کے لیے مناسب سواری کا انتظام بےحد ضروری ہے۔
رات قیام کے بعد علی الصبح ناشتے کے بعد ضروری کام نمٹا لیے۔ دیوسائی میں پلاننگ کرکے بھی اکثر اوقات کوئی نیا ایڈونچر دیکھنے کا موقع مل ہی جاتا ہے کیوں کہ دیوسائی کا موسم نہایت ہی ظالم ہے۔ 2 سال قبل دیوسائی میں کسارا جھیل کی تلاش میں ہمیں آسمان سے گرتے اولوں کے وار سہنے پڑے تھے کیونکہ سطح سمندر سے 13 ہزار فٹ کی بلندی کی وجہ سے یہاں نہ درخت اور نہ ہی کوئی بڑی چٹانیں موجود ہیں لہذا دوڑتے ہوئے کم بلندی پر پہنچے، کچھ کم بلندی کی وجہ سے اولے بارش میں تبدیل ہوچکے تھے اور یوں قدرت نے ہماری جان بخشی فرمائی۔
ہلکے بادلوں کے روبرو پیش آنے والی موسمی شدت کا اندازہ بخوبی لگاتے ہوئے ہم نے سامان سفر میں 2 عدد رک سیک تیار کیے۔ چائے بنانے والا ہائی آلٹیٹیوڈ چولہا اور کچھ بسکٹ اور برساتیاں ہمارے اس سفر کے جیسے جیون ساتھی تھے۔
کیمپ سائٹ سے ہم مقامی دوستوں کی دعاؤں کے سائے میں روانہ ہوئے۔ ہمارے پیارے دوستوں نے ہمیں کامیابی اور بخیریت واپسی کی دعا دی۔ ان کی پر خلوص دعاؤں سے دامن بھر کر ہم نے انہیں الوداع کہا۔ ہمارا سفر شیوسر جھیل کے عقبی جانب چھوٹے دیوسائی کی سمت میں تھا۔ عام طور پر شیوسر جھیل کے بارے میں مشہور ہے کہ اس جھیل کے پانی کا کوئی مخرج نہیں لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔
فدا علی سلطانی نے راہ چلتے ہوئے بتایا کہ 40 سال قبل جب وہ جھیل کے مخرج پر ایک مرتبہ اپنے والد کے ساتھ آئے تو پانی کی شدت کی وجہ سے انہیں اس حصے کو پار کرنے میں شدید دشواری پیش آئی لیکن اب شیوسر جھیل کے عقب میں ایک چھوٹی سی ندی کی صورت میں بہتا پانی دیوسائی کے وسیع میدان میں ہی ایک مقام پر کالا پانی کی ندی میں ضم ہوجاتا ہے۔ اس سال جھیل کا پانی کناروں سے ایک فٹ کم دکھائی دیا۔ انسانی طمع و حرص نے ان دور دراز کے قدرتی خزانوں پر بہت ہی برا اثر ڈالا ہے۔
اس مقام کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہم جلد ہی شیوسر سے دور ہوتے گئے اور ایک ایسے میدان میں داخل ہوئے جہاں زمین اسپنج کی طرح نرم تھی۔ قدم رکھنے پر دبتی تھی اور قدم اٹھانے پر پھر واپس اپنی جگہ پر آجاتی تھی۔ جگہ جگہ پر زمین میں کسی نے جیسے گڑھے کھود رکھے ہیں۔ وائلڈلائف کے ساتھی نے بتایا کہ ریچھ نے میدان میں جگہ جگہ یہ گڑھے کھودے ہیں جن میں وہ بعض اوقات اپنے شکار کو دفن کردیتا ہے۔
اس طرح درختوں کی موجودگی نہ ہونے کی وجہ سے پرندوں کے گھونسلے بھی زمین پر بنے نظر آتے ہیں۔ دور دور تک لہردار ميدان، بل کھاتے پانی کے چھوٹے چھوٹے صاف و شفاف دریا اور سورج کی روشنی میں طلمساتی چمک اوڑھے پہاڑوں کی چوٹیاں یہی دیوسائی کا وہ حسن ہے جو ناقابل بیان ہے۔ ان مناظر سے دل بہلاتے ہوئے ہم ایک ٹاپ کی چڑھائی چڑھنے لگے۔ ٹاپ سے کچھ نیچے بعض دوست سگریٹ نوشی کرنے میں مصروف ہوگئے جبکہ ہمیشہ کی طرح میں نے گیان بانٹنا شروع کردیا میرے مطابق ٹریکنگ کے دوران سگریٹ نوشی خودکشی کے مترادف ہے کہ اگر ہائیکنگ کرکے بھی آپ نے اپنے شہری زنگ آلود پھیپھڑوں کو دوبارہ خراب کرنا ہے تو زندگی کا فیصلہ آپ ہی کے ہاتھ میں ہے۔
ٹاپ سے کچھ نیچے 2 چھوٹی چھوٹی جھیلیں ملیں ایک جھیل بالکل آم کی شکل کی مانند دکھائی دیتی ہے اور یہاں سے شیوسر جھیل بالکل ایک لکیر کے مترادف دور سے دکھائی دے رہی تھی۔ نظارہ بہت ہی خوبصورت تھا۔ لیکن بادلوں نے آگھیرا تھا اس لیے فوراً ٹاپ کی طرف چل پڑے۔ دور سے تلمیذ رک سیک لےکر لمبے راستے سے گھومتا ہوا ہماری طرف آرہا تھا۔ ہماری طرف سے اسے یہ خاص اجازت شروع میں ہی مل چکی تھی لیکن شرط یہ تھی کہ نظروں سے اوجھل نہیں ہونا لیکن موصوف نہ جانے کہاں غائب رہے اور ہمارا بلڈ پریشر بڑھانے کے بعد اچانک دور سے نظر آتے دکھائی دیے۔
ٹاپ پر پہنچ کر کچھ دیر سستانے کا ارادہ ہوا۔ چولہا نکال کر چائے بنانے کا قصد کیا ہی تھا کہ ہلکی بارش نے آگھیرا۔ لہذا ٹاپ سے اتر کر پھر چڑھائی چڑھ کر دونوں جھیلوں تک رسائی ممکن تھی۔ البتہ ٹاپ سے جھیل اور شیر قلی ایک دل کی ساخت والی جھیل دونوں کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔
بارش مزيد تیز ہوتی جارہی تھی اور کسارا جھیل والا نظارہ میرے ذہن میں تھا۔ دولت خان نے میری فکر کو بھانپ لیا تھا اور ہنستے ہوئے کہا کہ ’بھٹی فکر نہ کرو آج ہمارے ٹینٹ بچ جائیں گے کیونکہ گہرا بادل ابھی تک نہیں ہے‘۔
اترائی اور دوباره چڑھائی کسی بھی ایڈونچر سے کم نہیں ہوتی۔ مزید 2 گھنٹے کی مسافت طے کرکے بالآخر ہم شیرقلی کی پہلی جھیل کے قرب میں پہنچ چکے تھے۔ شیرقلی کی ان جھیلوں تک رسائی کے لیے عموماً مقامی بکروال چھچھور پاس سے کچھ پہلے شیرقلی گاؤں کی طرف سے جاتے ہیں لیکن ہم نے پہلی مرتبہ شیوسر سے نقشے کی مدد سے جانے کا قصد کیا اور ہمارا اندازہ بالکل ٹھیک لگ رہا تھا۔ 10 سے 15 منٹ کے بعد ہم جھیل کے سامنے تھے۔
ایسا محسوس ہوا جیسے قدرت ہمیں خوش آمدید کہہ رہی ہو۔ بہت ہی خوبصورت نظارہ تھا۔ میں نے وقت کی بچت اور موسم کے پیش نظر احتیاط برتتے ہوئے قرب میں موجود دوسری جھیل پر جاکر اپنا گوپرو [کیمرا] نصب کردیا۔ بارش قدرے تیز ہوچکی تھی۔ تیر کے وی کے نشان کی مانند یہ جھیل بہت بڑی لیکن سحر انگیز تھی۔ کیا خوبصورت نظارہ تھا۔ کچھ دیر کے لیے موسم کی بدلتی انگڑائی کو بھول چکے تھے۔ جھیل کے اوپر آوارہ بادلوں کی گردش اور کنارے سے چھلکتا پانی بہت ہی دلربا منظر تھا۔ بہرحال سخت موسم نے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا تھا۔
کچھ دوست پہلے سے جھیل کے قرب میں موجود ایک چٹان کی اوٹ میں ایک برساتی کی چھت بناکر چولہا جلانے میں مصروف تھے۔ شدید بھوک سے دوچار کوہ نوردوں کا برا حال تھا۔ چائے کی چسکی اور ساتھ بسکٹ تناول کرنا جیسے دنیا کی تمام نعمت مل گئیں ہوں۔ جمتے ہوئے بدن میں جیسے جان سی پڑ گئی۔ اس ایڈونچر سے ہم بھرپور لطف اندوز بھی ہوئے لیکن دیوسائی کی شدید موسمی صورتحال کا اندازہ ایک مرتبہ پھر اچھے سے ہوا۔
جلد ہی واپسی کا فیصلہ ہوا کیونکہ لطف اندوزی کے لمحات اب پیچھے رہ چکے تھے اور بدن کہہ رہا تھا کہ جلد از جلد کسی گرم خیمے کا مسکن مل جائے تو پھر کیا ہی بات ہے۔ ساتھ موجود دوسری جھیل پر ڈرون اڑا کر یادگار تصویریں کھینچیں اور ہمارا قافلہ اب واپسی کے لیے رواں دواں تھا۔ بارش تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور دوبارہ چڑھائیاں اور اترائیاں چڑھتے ہوئے ہم مزید 3 گھنٹے میں شیوسر کے عقب میں جا پہنچے تھے۔
سخت موسم کے باوجود قريباً 8 گھنٹے کی ٹریکنگ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ مقامی دوستوں کے مطابق ہم چلنے میں ان سے کم نہ تھے۔ تعریفوں کے پل باندھتے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے، شیوسر کے کناروں سے چھلکتے ہوئے پانی، کناروں پر اُگی گھاس کی سرسراہٹ کی پرسکون آوازیں سنتے ہوئے اپنے خیموں کی طرف رواں دواں تھے۔
ان مقامات کا تعارف کروانے کے پیچھے ایک امید یہ بھی دامنِ دل میں سر اٹھاتی ہے کہ کاش پاکستان کی خوبصورتی کا ہمیں احساس ہو اور ہم اس ارضِ پاک کی قدر کر سکیں۔ ان دور دراز کے خوبصورت علاقوں میں کھربوں روپے کی سیاحت چھپی ہوئی ہے۔ اہل اختیار کی نظرِکرم کی منتظر یہ حسین وادیاں اپنے قدردانوں کے انتظار میں ہیں۔
لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: BakhatNasr@ . ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔