بل قانون بننے سے قبل ’سلیکٹیو بینچ‘ بنا کرسماعت کیلئے مقرر کیا گیا، وزیرقانون
وفاقی وزیر قانون نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے خلاف درخواستیں سماعت کے لیے مقرر ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانون بننے سے قبل ہی بل پر ایک سلیکٹیو بینچ بنا کر سماعت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ موجودہ حالات پر بات کرنا اس لیے مقصود ہے کہ کئی چہ مگوئیاں ہوتی ہیں اور سوالیہ نشانات ہیں اور مؤقف پر بھی بات کی جاتی ہے، اسی لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ میڈیا سے بات کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بڑے افسوس اور دکھ کے ساتھ یہ بات کر رہے ہیں کہ آج غیرروایتی کام کیا گیا ہے اور سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی جو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023کے حوالے سے ہے، جو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کروایا گیا اور صدر کو بھیج دیا گیا لیکن وہاں واپس بھیج دیا گیا تو مشترکہ اجلاس میں بحث کے بعد منظوری کے لیے دوبارہ صدر مملکت کو بھجوا دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت صدر مملکت اس پر مزید 10 دن یعنی 19 یا 20 اپریل تک جائزہ لے سکتے ہیں اور صدر نے دستخط نہیں کیے تو اور ایکٹ آف پارلیمنٹ میں تبدیل نہیں ہوا اور قانون بننے سے پہلے ہی سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی اور وہ سماعت کے لیے مقرر کردی گئی۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سماعت کے لیے 8 رکنی بینچ تشکیل دے دیا گیا، ہم نے ماضی میں دیکھا کہ کبھی بھی قانون سازی سے پہلے سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا جاتا ہے، اگر یہ قانون بن جاتا ہے تو پھر اس کو چیلنج کیا جاسکتا ہے اور یہ شہری کا حق بنا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح عجلت میں یہ مقدمہ مقرر کیا گیا اور یہ بینچ بنایا گیا، اس میں بھی بارہا پارلیمان اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اور بار کونسلز نے بھی مطالبہ دہرایا اور گزشتہ ایک برس سے کئی مواقع پر کیا گیا۔
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ جب آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے بعد پنجاب حکومت کی تبدیلی کا مقدمہ سپریم کورٹ میں آیا تو اس وقت بھی مطالبہ کیا گیا فل کورٹ تشکیل دیں کیونکہ یہ ایک اہم قومی معاملہ ہے لیکن اس وقت بھی لارجر بینچ یا فل کورٹ نہیں دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سپریم کورٹ بار کے 7 سابق صدور نے مطالبہ کیا حالانکہ عدلیہ کی آزادی کے لیے بار کا کردار رہا ہے اور اس کے بعد بھی کئی مواقع آئے لیکن فل کورٹ نہیں بنایا گیا۔
’بینچ کی تشکیل میں سینیارٹی کا اصول مدنظر نہیں رکھا گیا‘
انہوں نے کہا کہ یہ ساری صورت حال بہت الارمنگ ہے، موجودہ بل کو قبل از وقت ایک ’سلیکٹیو‘ بینچ کے سامنے لگانا، جس میں سینیارٹی کے تمام اصول نظرانداز کیے گئے ہیں اور دو سینئرترین جج صاحبان اس میں نہیں ہیں، پانچویں، ساتویں اور آٹھویں نمبر پر موجود سینئر جج اس بینچ میں شامل نہیں ہیں بلکہ ’پک اینڈ چوز‘ کے ذریعے 8 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہمیں اس بات پر دکھ اور تکلیف بھی ہے اور عدالتی مثال بھی ہے چیف جسٹس صاحب کے بینچ بنانے کے اختیارات سے متعلق بل ہے جو ابھی قانون بنا نہیں ہے، مان لیا کہ آپ نے بینچ بنایا ہے تو تمام تر سابقہ روایات اور اصول اس بات کے متقاضی ہیں کہ چیف جسٹس صاحب خود اس بینچ کی سربراہی نہ کریں کیونکہ یہ مفادات کا ٹکراؤ ہے۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کے اختیارات کی بابت بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز کا یہ دیرینہ مطالبہ تھا اور سول سوسائٹی کی طرف سے بھی یہ بات آئی۔
ان کا کہنا تھا کہ رات کو بار کونسلز، پاکستان بھر وکلا کی تنظیموں، پاکستان بار کونسل، سندھ بار کونسل، بلوچستان بار کونسل، پنجاب بار کونسل، اسلام آباد بارکونسل، خیبرپختونخوا بار کونسل سب نے بیک زبان ہو کر کہا کہ قانون بننے سے قبل سماعت کے لیے بینچ لگایا گیا ہے اور بینچ کی تشکیل قبول نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ یہ صورت حال افسوس ناک ہے، جب مناسب وقت ہو تبھی مقرر کیا جائے اور کہا کہ اس قانون کے لیے ہمارا بھی مطالبہ تھا لہٰذا ذاتی انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔
’ٹکراؤ کی کیفیت پارلیمان کی طرف سے نہیں ہے‘
ان کا کہنا تھا کہ ان ساری باتوں کے باوجود معاملات اس طرح چل رہے ہیں اور جس سمت میں جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں تو معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ یہ ایک ٹکراؤ کی کیفیت پارلیمان کی طرف سے نہیں ہے کیونکہ پارلیمان کا یہ آئین اور قانون کے تحت اختیار ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کی بہتری، اداروں کی مضبوطی، اداروں کی غیرجانب داری یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کرے۔
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ ہم سب بیک زبان ہو کر پاکستان کے 22 کروڑ عوام کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ عوام کا حق کمپرومائز نہیں ہونے دیں گے، ہم اپنے حقوق اور اس کا تحفظ کرنا بھی جانتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اختیار کسی کو نہیں دیا جاسکتا کہ پارلیمان کو قانون سازی کے عمل سے روکنے کی کوشش کی جائے، ابھی قوانین بن رہے ہوں تو اس پر قدغنیں لگانے کی باتیں ہوں تو یہ انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے۔
انہوں موجودہ شکل میں بینچ کی تشکیل کے حوالے سے تمام اتحادی متفق ہیں کہ نہ تو یہ وقت درست ہے یعنی ابھی قانون بنا ہی نہیں تو بینچ بنا کر اس کو مقرر کیا گیا ہم اس کو مسترد کرتے ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ قانون سازی کے ہمارے اختیار پر اداروں بے جا مداخلت کے حوالے سے ہم اپنے اصولی مؤقف پر کھڑے ہیں کہ ریاست کے تینوں ستون اپنی حدود میں کام کریں۔
’توقع ہے آج یہ بینچ تحلیل کردیا جائے گا‘
بینچ کی تشکیل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہم وفاق میں رہتے ہیں، وفاق کی چار اکائیاں ہیں اور بینچز بنانے پر بھی اب یہ باتیں ہو رہی ہیں، ہمارے دوست کہہ رہے تھے کہ کیا وجہ ہے بلوچستان اور خیبرپختونخوا سپریم کورٹ میں ججوں کی موجودگی کے باوجود ان ججوں کو نہ پہلے اس طرح موقع دیا گیا ارو اگر دیا گیا تو ان کی رائے نہیں لی جاتی۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے اہم کیس جو آج سنا جا رہا ہے اس میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی نمائندگی سرے سے نہیں ہے، ہمیں ایک سپریم کورٹ چاہیے، ہم دو سپریم کورٹ کی بات نہیں کرتے، افسوس ہے کہ ادارے میں تقسیم کا تاثر دن بدن مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے اور اب تو وہ عیاں ہو کر سامنے آگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں جو فیصلے آئے اس میں کہا گیا کہ یہ امپیریل کورٹ نہیں ہے اور شاہی دربار نہیں ہے، یہاں ون مین شو نہیں ہوگا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہم اپنا آئینی اور جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے گزارش کرتے ہیں اور ہمارا مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 سے متعلق سماعت کا وقت درست ہے اور نہ عدالتی روایات کے تحت اس وقت چلائی جا سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم توقع رکھتے ہیں کہ آج یہ بینچ تحلیل کردیا جائے گا اور جب مناسب وقت ہوگا، جب یہ قانون بن جائے گا تو شہریوں کا حق ہے اور عدالت کا اختیار ہے وہ کس طرح دیکھتے ہیں اور رائج الوقت قانون کے مطابق اور اعلیٰ عدالتی روایات کو سامنے رکھتےہوئے اختیار ہوگا۔
پارلیمان کو اختیارات کے استعمال سے روکنا قابل قبول نہیں، قمرزمان کائرہ
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ بل ابھی پارلیمنٹ کے پاس ہے، صدر پارلیمنٹ کا حصہ ہوتا ہے اور انہوں نے تاحال کوئی رائے نہیں دی ہے اور اس دوران سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے مقرر کردیا۔
انہوں نے کہا کہ اس بات کی منطق سمجھ نہیں آیا کیا آپ پارلیمان کو اختیارات کے استعمال سے روکنا چاہتے ہیں، کیا دنیا کے کسی ملک میں کبھی ایسا ہوا ہے جو ہم قبول کریں گے، بالکل نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج ہمیں توقع تھی کہ ماحول تلخ ہوگیا ہے، ہم نے اپنی گزارشات کیں، جج صاحبان کی طرف سے بھی باتیں آگئیں اور فیصلے بھی آگئے لیکن خیال تھا کہ کوئی بہتری آئے گی اور ماحول ٹھنڈا ہو جائے گا اور غصے اور ہیجان کے فیصلے نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ آج یہ بینچ بنا کر ایک تو پارلیمان کو اس کے اختیارات سے روکنے کی جو سعی ہو رہی ہے یہ بالکل قابل قبول نہیں ہے، میں سیاسی کارکن ہوں اور اس پر جو عذاب گرے لیکن ہم کمپرومائز نہیں کرسکتے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر آج اس موقع پر ماضی کے فیصلوں کی تلافی کرتے ہوئے بہتری کی طرف چلتے اور فل کورٹ بناتے، آپ خود تقسیم کا واضح ثبوت دے رہے ہیں اور پھر ہمیں توہین عدالت کا قانون سے ڈرا کر رکھا جائے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ ڈر جائیں۔
’معاملات اسی طرح چلے تو ہم قبول نہیں کریں گے‘
انہوں نے کہا کہ اداروں کا تصادم خوف ناک طرف لے کر جا رہا ہے، ملک کے حالات پہلے ہی خراب ہیں، ہم نے یہ تو نہیں کہا کہ چیف جسٹس کو بینچ نہیں بنایا چاہیے بلکہ ہم کہہ رہے ہیں بینچ بنانے کا طریقہ کار درست نہیں ہے اس کو ٹھیک کریں کیونکہ یہ قانون ابھی مووجد نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج جو ڈھٹائی، ضد اور انا کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، ساری قوم کو اس کا ادراک ہے، سپریم کورٹ کی رپورٹنگ کرنے والے دوستوں سے سوال ہے کہ اس بینچ کو دیکھنے کے بعد آپ کا کیا تاثر ہے، چیف جسٹس صاحب اس تاثر کو توڑیے۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ اسی طرح چلے گا تو ہم اس کو قبول نہیں کریں گے۔
مقدمے کی سماعت کیلئے بینچ کی تشکیل مسترد کرتے ہیں، سینیٹر کامران مرتضیٰ
جمعیت علمائے اسلام پاکستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ہم کبھی سوچا یا دیکھا بھی نہیں تھا کہ عدالتوں میں ایسی کوئی لائن ہوتی ہے، جس کے اوپر دل میں کسی وقت شک ہوجائے۔
انہوں نے کہا کہ وکیل کے طور پر بینچ کی تشکیل دیکھ کر مجھے مقدمہ مقرر کرنے اور بینچ کی تشکیل پر حیرانی اور تکلیف ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں چند باتیں عجیب ہیں کہ بل ابھی قانون نہیں بنا اور شاید اتنی جلدی تھی اس کو چیلنج کیا گیا اور اس سے بھی زیادہ جلدی اس حد تک ہے کہ اس کو سماعت کے لیے مقرر بھی کیا گیا حالانکہ اس سے اہم مقدمات برسوں سے زیر التوا ہیں جو مقرر نہیں ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ کئی مقدمات ایسے ہیں جو رواں برس جنوری میں دائر کیے ہیں اور ابھی تک نمبر نہیں لگے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ کیس لگ گیا اور بینچ کی تشکیل بھی ایسی کہ 8 جج شامل کیے گئےہیں، اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 8 ججوں نے سنا تو اپیل کا حق ختم کردیا کیونکہ اختلاف ہوا تو بڑا بینچ سنتا ہے لیکن باقی 7 جج ہیں اور جس طرح مختلف ہائی کورٹ سے جونیئر جج لائے جاتے ہیں تو آج اس مقصد کی سمجھ آگئی ہوگی کہ کس طرح وہ آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ ایسا مطالبہ ہے جس کو ہم بار بار دہرا رہے ہیں اور جب ایک اچھا کام پارلیمنٹ میں لایا گیا ہے تو اس کا ایسے تیا پانچہ کرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی دوست کے ساتھ ماضی میں زیادتی ہوئی تھی تو اس کا مداوا کرنے کے لیے عدالت کے اندر راستہ دکھایا گیا ہے تو اس میں کیا برائی ہے اور مسئلہ کیا ہے۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ہم نے اس قانون میں کون سی ایسی بری بات کی تھی کہ سب اتنی جلدی ناراض ہوگئے اور جلدی میں مقدمے سماعت کرنے آئے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پارٹی اور حکومتی اتحاد کی سطح پر نہ صرف اس بینچ کی تشکیل کو مسترد کرتے ہیں بلکہ اس میں بطور وکیل جو چیز میں سمجھ رہا ہوں وہ بیان نہیں کرسکتا، وہ بہت بری بات ہے۔
بینچ میں ایسے جج بھی ہیں جن پر اعتراضات ہیں، رہنما اے این پی
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما افتخار حسین نے کہا کہ یہ جو بینچ بنا ہے اس سے لوگوں کو سمجھ آرہا کہ کیوں بنا، صدر صاحب نے بل روکا اور اس پر اعتراض لگایا اور پھر گیا، آج بینچ بنا رہے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے یہ ایک کڑی ہے، وہاں پر روکنا اور یہاں پر روکنا۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے خلاف ایسے انداز میں تیاری کرنا کہ ایک صدر صاحب بیٹھے ہوں، جس کی صدر پاکستان بننے کی خواہش ہی نہ ہو وہ پی ٹی آئی کا صدر بنا ہوا ہے اور جج تو پاکستان کے جج ہیں اس لیے ان کو اس سے احتراز کرنا چاہیے تھا لیکن صدر کا مقصد آگے بڑھا کر انہوں نے اپنے مفادات کے لیے بینچ بنا دیا۔
انہوں نے کہا کہ اس بینچ میں ایسے جج بھی ساتھ رکھے گئے ہیں، جن پر اعتراضات ہیں اور ایسے جج بھی ہیں جو جونیئر ترین ہیں اور یہ احساس دلانا کہ فل کورٹ بنے تو بھی ہماری اکثریت ہے، پھر ہماری جمہوریت کو دیکھیں کہ ہم کہتے ہیں فل کورٹ بناؤ۔
افتخار حسین نے کہا کہ اگر وکلا برادری کا کئی برسوں سے مطالبہ تھا اور آج پارلیمان وہ مطالبہ پورا ہو رہا ہے تو اس پر انہیں خوش ہونا چاہیے تھا اور یہ ججوں کے معاملات میں مداخلت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ججوں اور عدالت کا احترام کرتے ہیں لیکن پارلیمنٹ سپریم ہے، جس کو ماننا پڑے گا اور اگر کوئی اس کی قانون سازی، اختیارات کو روکے اور پارلیمنٹ کو بھی نہ مانے تو پارلیمنٹ اپنے آئینی اختیارات استعمال کرکے اپنا فرض پورا کرے گی۔