پاکستان

انتخابی قوانین میں مجوزہ تبدیلیوں کا جائزہ لینے کیلئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل

الیکشن کمیشن کی تجاویز پر غور کے لیے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اسپیکر قومی اسمبلی کی مشاورت سے 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے انتخابی قوانین میں الیکشن کمیشن کی جانب سے تجویز کردہ ترامیم کا جائزہ لینے کے لیے 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیئرمین سینیٹ کا یہ اقدام چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) سکندر سلطان راجا کی جانب سے ایک خط موصول ہونے کے 2 روز بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ پارلیمان کو عام انتخابات کی تاریخ کے تعین میں صدر کے کردار کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے، اسی طرح کا خط چیف الیکشن کمشنر نے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کو بھی ارسال کیا تھا۔

سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حامد خان کے دستخط زدہ یہی خطوط وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اور سیکریٹری برائے پارلیمانی امور کو بھی بھیجے گئے، ان خطوط کے ذریعے الیکشن کمیشن نے الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 57(1) اور 58 میں ترامیم کی تجویز پیش کی۔

خط میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے بغیر کسی بھی مرحلے پر انتخابی شیڈول کا اعلان کرنے اور اسے تبدیل کرنے کا اختیار واپس حاصل کرنا چاہتا ہے۔

سینیٹ سیکریٹریٹ کے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق صادق سنجرانی نے سینیٹ کے قواعد و ضوابط کے رول 264 کے تحت حاصل اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی کی مشاورت سے کمیٹی تشکیل دی تاکہ 10 اپریل کو لکھے گئے خط کے ذریعے الیکشنز ایکٹ 2017 میں الیکشن کمیشن کی جانب سے تجویز کردہ ترامیم پر غور کیا جاسکے۔

کمیٹی میں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے 4، 4 ارکان شامل کیے گئے ہیں، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور پارلیمانی امور کے وزیر مرتضیٰ جاوید عباسی کے علاوہ کمیٹی میں اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر علی ظفر، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر تاج حیدر، آزاد سینیٹر دلاور خان، پی ٹی آئی کے منحرف رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر افضل، وزیر تجارت اور پی پی پی رہنما سید نوید قمر، مسلم لیگ (ن) کے محسن نواز رانجھا اور متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے صابر قائم خانی شامل ہیں۔

پی ٹی آئی کے سینیئر نائب صدر فواد چوہدری نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ نے ہماری جماعت کی رضامندی لیے بغیر کمیٹی تشکیل دے دی ہے تاہم پارٹی اندرون ملک مشاورت کے بعد کمیٹی میں شرکت یا بائیکاٹ کا فیصلہ کرے گی۔

فواد چوہدری نے مذکورہ خط لکھنے پر الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے احمقانہ عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کسی بھی صورت میں 90 روز کی آ مدت کے اندر انتخابات کرانے کی ئینی ذمہ داری سے بھاگ نہیں سکتا’۔

سپریم کورٹ کی وفاقی حکومت کو انتخابات کیلئے فنڈز کے اجرا میں تاخیر پر نتائج کی تنبیہ

دو منہ بال کیا ہیں اور اس کی کتنی اقسام ہیں؟

پی ٹی آئی کی بائیڈن انتظامیہ کی حمایت حاصل کرنے کی سرتوڑ کوششیں