قونصل خانہ کھولنے پر بات چیت کیلئے ایرانی حکام سعودی عرب پہنچ گئے
تعلقات بحال ہونے کے بعد ایرانی حکام سفارت خانہ و قونصلیٹ کھولنے کی راہ ہموار کرنے کے لیے سعود عرب پہنچ گئے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’آئی آر این اے‘ نے رپورٹ کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان حالیہ معاہدے کے پیش نظر ایرانی وفد سفارت خانہ اور قونصلیٹ کی دوبارہ بحالی کے لیے ریاض پہنچا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایرانی وفد کی ایک ٹیم قونصلیٹ کی دوبارہ بحالی اور اسلامی تعاون تنظیم میں نمائندگی کے لیے جدہ جائے گی جبکہ دسری ٹیم سفارت خانہ کی بحالی کے لیے ریاض میں ہوگی۔
ایرانی صدر محمد رئیسی کو سعودی عرب مدعو کیا گیا ہے جو کہ 1999 میں محمد خاتمی کے بعد کسی ایرانی صدر کا پہلا دورہ ہوگا۔
خیال رہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی اور تعطل کا شکار سفارتی تعلقات گزشتہ ماہ چین کی کوششوں سے بحال ہوئے کیونکہ اس سے قبل دونوں ممالک مشرقی وسطیٰ میں ایک دوسرے کے خلاف تنازعات کی معاونت کرتے تھے جس کی وجہ سے خطے میں سیکیورٹی، اقتصادی اور تعاون میں خلل موجود رہا۔
سعودی عرب کی جانب سے 2016 میں شیعہ عالم نمر النمر کو پھانسی دینے کے بعد ایران میں سعودی سفارتی مشن پر حملہ کیا گیا تھا جس کے بعد سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات ختم ہوگئے تھے۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق 10 مارچ کو طے پانے والے معاہدے کے بعد دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے چین میں ملاقات کی تھی جبکہ گزشتہ ہفتے سعودی عرب کے ’ٹیکنیکل وفد‘ نے ایران کے چیف آف پروٹوکول سے ملاقات کی تھی۔
تعلقات اور روابط میں پیش قدمی کے بعد سعودی عرب یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے ساتھ بھی بات چیت کر رہا ہے۔
رواں ہفتے سعودی عرب کے سفیر محمد الجبیر نے جنگ بندی کو مستحکم کرنے اور حوثیوں اور معزول حکومت کے درمیان ’جامع سیاسی حل‘ کی امید کے ساتھ یمن کے حوثی باغیوں کے زیرِ قبضہ دارالحکومت صنعا کا دورہ کیا تھا۔
قبل ازیں 2015 میں حوثی باغیوں کے خلاف جنگ کے پیش نظر سعودی عرب نے ملٹی نیشنل اتحاد کو اکٹھا کیا تھا جیسا کہ حوثی باغیوں نے یمن میں صنعا پر قبضہ کرکے حکومت کو بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔
اس کے بعد تہران سے جنگ کے لیے یہ علاقہ سعودی عرب کی پراکسی وار کا مرکز رہا اور اس تنازعہ میں شام، عراق اور لبنان بھی شامل رہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اب 8 سالہ جنگ ختم کرکے علاقائی منصوبوں پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے جس کا مقصد توانائی (تیل) پر منحصر اپنی معشیت کو متنوع بنانا ہے۔