دنیا

اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والی خواتین پر پابندی ’اندرونی مسئلہ‘ ہے، افغان طالبان

واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پابندی کا فیصلہ افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے جو کسی کے لیے مسائل پیدا نہیں کرے گا اور ہر سطح پر اس کا احترام کیا جانا چاہیے، ذبیح اللہ مجاہد

افغانستان کے طالبان حکام نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والی خواتین پر پابندی عائد کرنا ملک کا ’اندرونی مسئلہ‘ ہے جس کا ہر سطح پر احترام کیا جانا چاہیے۔

غیرملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ اقوام متحدہ کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتے۔

طالبان ترجمان نے کہا وہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ افغانستان کا اندرونی مسئلہ ہے جو کسی کے لیے مسائل پیدا نہیں کرے گا اور ہر سطح پر اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔

ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ اس فیصلے میں کوئی تفریق نہیں ہے، لیکن اس کے برعکس مذہبی اور ثقافتی مفادات کو نظر میں رکھتے ہوئے ہم لوگوں کے تمام حقوق کے لیے پرعزم ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغانیوں کے پاس اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت موجود ہے لیکن ملک کو درپیش مسائل اقتصادی اور بینکنگ سسٹم پر عائد کی گئی پابندیوں کی وجہ سے ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک اثاثے منجمد کرنے، بینکنگ، سفری پابندیوں اور دیگر پابندیوں کے مسائل حل کریں تاکہ افغانستان اقتصادی، سیاسی اور سیکیورٹی کے شعبوں میں ترقی کر سکے۔

خیال رہے کہ افغان طالبان کی طرف سے گزشتہ برس دسمبر میں ملک میں کام کرنے والی بین الاقوامی فنڈ تنظیموں میں خواتین کی ملازمت پر پابندی عائد کرنے کے بعد اس میں توسیع کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے لیے کام کرنی والی خواتین پر بھی پابندی عائد کردی ہے جس سے ان پر بین الاقوامی برادری کی طرف سے سخت تنقید کی جارہی ہے۔

واضح رہے کہ اگست 2021 میں اقتدار میں واپسی کے بعد طالبان حکام نے اسلام کی سخت تشریح کے ساتھ ملک میں خواتین کو ملازمتوں سے روکنے، پردہ کرنے، بغیر مرد ساتھی کے عوامی مقامات میں نہ نکلنے جیسی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور بعدازاں لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔

آج اقوام متحدہ نے کہا کہ خواتین کی ملازمت پر پابندی اس مشکل ترین انتخاب کرنے پر مجبور کر رہی ہے کہ آیا کہ افغانستان میں سرگرمیاں جاری رکھنی چاہئیں یا نہیں۔

عالمی ادارے نے کہا کہ وہ اس پابندی کو تسلیم نہیں کرے گا کیونکہ یہ عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت غیرقانونی ہے۔

خواتین پر بڑھتی ہوئی پابندیاں 1996 اور 2001 کے درمیان طالبان کی پہلی حکومت کی ایک جھلک ہے جب اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ وہ انسانی حقوق بالخصوص لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کی بار بار خلاف ورزیوں کے ذمہ دار ہیں۔

دسمبر 2022 میں افغان خواتین پر ملکی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے لیے کام کرنے پر پابندی عائد کرنے کے بعد 4 اپریل کو اس میں توسیع کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے لیے بھی کام کرنے سے روک دیا تھا۔

طالبان حکام کی طرف سے پابندی کے فیصلے کے بعد اقوام متحدہ نے مرد اور خواتین افغان اسٹاف کو مزید احکامات تک دفتر نہ جانے کی ہدایات جاری کی تھیں۔

طالبان حکام نے دسمبر میں عائد کی گئی پابندیوں پر دلیل دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں کچھ سنگین شکایات موصول ہوئیں تھیں کہ خواتین اسلامی شریعت کے مطابق ڈریس کوڈ (لباس) پر عمل نہیں کر رہیں۔

خیال رہے کہ افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد امریکا نے فوری طور پر افغان سینٹرل بینک میں رکھے گئے 7 ارب ڈالر کے اثاثے منجمند کردیے تھے جس کی وجہ سے ملک کو متعدد مسائل سے دوچار ہونا پڑا۔

سی ٹی ڈی کی اہم کارروائی، تخت بیگ چیک پوسٹ پر خودکش دھماکے میں ملوث 7 دہشت گرد گرفتار

برطانیہ: تنخواہوں میں اضافے کیلئے ڈاکٹروں کی 4 روزہ تاریخی ہڑتال

اسد قیصر سے راجا پرویز اشرف تک: گزشتہ سال قومی اسمبلی میں کیا کچھ ہوا؟