نقطہ نظر

فرے منریک: ایک پرتگیز پادری کی سفرِ سندھ کی کتھا (آخری حصہ)

منریک کا قافلہ ٹھٹہ سے نکلا اور جنوری کی ابتدا میں ملتان پہنچا جہاں اُسے نواب آصف خان کے موت کی خبر ملی اور یہ منریک کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں تھی۔

اس سلسلے کی پہلی اور دوسری قسط پڑھیے۔


بکھر، سکھر اور روہڑی یقیناً کبھی اتنے خوبصورت شہر نہیں ہوتے اگر دریائے سندھ کو ان سے محبت نہ ہوتی۔ یہ دریائے سندھ کا بہاؤ ہی تھا جو اپنے پرانے مشرقی بہاؤ کو چھوڑ کر ان چھوٹی چھوٹی بستیوں کو اپنی بانہوں میں لینے کے لیے کئی سو برس پہلے یہاں تک آپہنچا۔

بکھر کا قلعہ، سکھر اور روہڑی کے بیچ میں تھا اور اب بھی ہے۔ ان تینوں بستیوں کے لوگوں کے سامنے گزرے زمانوں میں بلکہ اب بھی سندھو کا مٹیالا پانی بہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منریک کو یہاں درخت اور باغات کچھ زیادہ نظر آئے۔ میں نے برٹش زمانے کے کچھ اسکیچ دیکھے ہیں جن میں روہڑی اور بکھر گھنے درختوں سے ڈھکے ہیں۔ 24 یا 25 ستمبر 1641ء کو منریک کی بادبانوں والی کشتی نے سندھ کے قدیم دارالخلافہ کو الوداع کہا اور اپنے سفر کی شروعات کی۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ چوتھے دن سیوہن سرکار (صوبہ) میں داخل ہوئے۔

اس دریائی راستے میں دریائی قزاقوں کے حملے ہوتے تھے۔ اس حوالہ سے ہمارے پاس کچھ معلومات ہیں جو ہمیں ولیم فوسٹر دیتے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ ’1635ء میں جب پرتگیزوں اور دوسرے یورپین کی بیوپاری منڈیوں میں مقامی بنائی ہوئی چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے دوڑ دھوپ لگی تھی تب کمپنی کی طرف سے لکھے ہوئے خط کے جواب میں آصف خان نے سندھ کے لاڑی بندر (ٹھٹہ) سے اچھی رعایت پر بیوپار کرنے کی دعوت دی۔ سفر میں تحفظ دینے کے ساتھ اجازت نامہ بھی بھیجا، اس کے کچھ دنوں بعد ٹھٹہ حکومت سے ہمیں جو خطوط موصول ہوئے اُن میں ہماری بہت ہمت افزائی کی گئی اور بیوپار کرنے کی دعوت دی گئی تھی‘۔

ساتھ ہی ’فوسٹر‘، بلوچ اور سمہ قوموں کا ذکر کرتا ہے جو سیوہن سے پہلے اور سیوہن کے بعد، چند مقامات پر جہازوں پر حملہ کرتے تھے۔ ’وتھنگٹن‘ جو 1612ء میں یہاں سے گزرا تھا وہ بھی اس قسم کے قزاقوں کا ذکر کرتا ہے۔

منریک لکھتا ہے کہ ’سیوہن سرکار کی سرحدوں میں داخل ہونے اور تھوڑا سفر کرنے کے بعد دریا کے پاٹ کی وسعت میں کمی آنے لگی مگر ایک آدھے دن کے بعد دریا کا پاٹ پھر پھیلنے لگا۔ ہم جیسے ہی کھلے دریا میں آئے تو دریا کے کنارے سے ملی ہوئی ایک دیوار کی طرح ایک چھوٹا جزیرہ موجود تھا جس پر درخت اور ہریالی اُگی ہوئی تھی۔ اچانک اس جزیرے کی پرلی طرف سے 2 کشتیاں ظاہر ہوئیں اور انہوں نے ہماری کشتی پر جلتے تیروں، پتھروں (پتھروں کا حملہ یا تو غُلیل سے کیا ہوگا یا ’کھانبھانی‘ سے، کھانبانی سوت کی رسی جو 6 فٹ تک لمبی ہوتی ہے اور اس کی آخر میں مٹی کاچھوٹا گولہ رکھنے کے لیے 4، 5 انچ کی جگہ بنائی ہوئی ہوتی ہے جس میں مٹی یا پتھر کا گولہ ڈال کر دور تک پھینکا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر کھیتوں سے پرندوں کے غولوں کو بھگانے کے لیے استعمال کرتے ہیں) اور نیزوں سے حملہ کرنا شروع کردیا۔

’اس اچانک حملے سے میرے محافظ سپاہی یہاں وہاں بھاگنے لگے کیونکہ ہم پر یہ حملہ دو اطراف سے ہوا تھا اگر ہمارے پاس گندھک والے بم نہ ہوتے تو وہ ہمیں زیادہ نقصان پہنچا سکتے تھے۔ ہمارے بموں کے حملے سے اُن کی کشتیوں میں آگ لگ گئی اور 2، 3 آدمیوں کے کپڑوں نے بھی آگ پکڑلی۔ اپنے آپ کو آگ سے بچانے کے لیے وہ پانی میں کود گئے، یہ سب ان کے لیے بالکل نیا اور حیران کردینے والا تھا اس لیے وہ بار بار فرنگی، فرنگی کہہ کر چیخ رہے تھے۔ وہ اتنے خوفزدہ تھے کہ اگر ہم چاہتے تو ان کی کشتیوں پر قبضہ کر لیتے مگر ہم نے انہیں بھاگنے کا موقع دیا۔ ان کے تیروں کے لگنے کی وجہ سے ہماری کشتی میں 3 آدمی شدید زخمی ہوئے تھے جن میں سے ایک تو کچھ گھنٹوں میں اپنی جان گنوا بیٹھا‘۔

کشتی میں مرنے والے کا تعلق ہندو مذہب سے تھا اس لیے کشتی کو کنارے سے لگا دیا گیا۔ لکڑیاں اکٹھی کی گئیں اور مرنے والے کو ہندو رسموں کے مطابق اگنی کے حوالے کیا گیا۔ رات بھی وہ وہیں رہے، صبح کو جب آگ ٹھنڈی ہوئی تو ہڈیوں کی راکھ کو سمیٹ کر سندھو دریا کے حوالے کیا گیا۔

اس کے بعد اس کے ساتھیوں نے دریا میں نہا کر دوپہر کا کھانا کھا کر، سیوہن کی جانب سفر کی شروعات کی۔ ہندو کے مرنے اور پھر اس کی آخری رسومات پر منریک اپنے غصے کا اظہار کرتا ہے اور ایسے جملے تحریر کرتا ہے جس کو ہم یہاں دہرانا نہیں چاہیں گے۔ اس کے بس میں شاید بہت کچھ نہیں تھا اگر ہوتا تو وہ شاید بہت کچھ کر گزرتا اور اُن کو اگنی سنسکار تک کرنے نہیں دیتا۔

تیسرے دن سیوہن پہنچے اور کسٹم پر ٹیکس وغیرہ دےکر وہ ٹھٹہ کی طرف روانہ ہوئے۔ میں حیران ہوں کہ منریک سیوہن کے متعلق کچھ نہیں لکھتا جبکہ وہاں ایک شاندار قلعے کے آثار موجود تھے۔ بلکہ فوسٹر تو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ’ان دنوں میں سیوہن بیوپار کے لیے انتہائی شاندار بستی تھی، یہاں پر نیل بہت بڑی مقدار میں بنتی تھی البتہ یہ ایک الگ بات ہے کہ اُس میں مٹی کی آمیزش ہوتی تھی تو وہ کوئی اتنی اچھی کوالٹی والی نیل نہیں تھی جبکہ یہاں بافتہ کپڑے بنانے کی سو کھڈیاں ہیں جہاں اچھا کپڑا بنتا ہے‘۔

’یہاں دیسی گھی کی فراوانی ہے، اور یہاں آفیم بڑی مقدار میں اور زبردست بنتی ہے اور مختلف بیجوں سے نکلا ہوا تیل بھی بڑی مقدار میں بازار میں آتا ہے۔ یہاں کے کسٹم کا ٹیکس دوسرے ضلعوں کی نسبت بہت سستا ہے اگر 100 من کا وزن لادے کشتی کا دوسری جگہوں پر ٹیکس 18 سے 20 روپیہ ہے تو یہاں 6 روپے ٹیکس لیتے ہیں‘۔ یقیناً تیل نکالنے کے لیے کئی کولہو بھی ہوں گے جن میں بیل اور اونٹ اپنی قسمت کی طرح سارا دن پھرتے ہوں گے مگر راستہ کوئی نہیں ملتا ہوگا کیونکہ ان کی آنکھیں جو بند ہوتی ہیں۔

منریک لکھتا ہے کہ ’سیوہن سے آگے ہمیں پھر ہری بھری فصلیں اور درخت نظر آئے اور اس طرح آرام سے سفر کرتے ہوئے ہم چوتھے دن اپنی منزل پر پہنچے۔ اس طرح ہمارے ایک طویل دریائی سفر کا اختتام ہوا اور ہم سلطنتِ سندھ کے میٹروپولیٹن شہر ٹھٹہ پہنچ گئے۔ چونکہ ہم کچھ گھنٹے دیر سے پہنچے تھے اس لیے کسٹم کا عملہ جا چکا تھا اور ہم نے جہاز کسٹم محافظوں کے حوالے کیا اور ہمیں مجبوراً رات جہاز میں گزارنی پڑی‘۔

دوسرے دن منریک (یہ اندازاً 5 اکتوبر 1641ء ہفتے کا دن ہوگا) کے ساتھ جو بیوپاری آئے تھے انہوں نے منریک کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی کہ وہ ان کے سامان کو اپنا سامان کہہ کر ٹیکس سے چھوٹ دلوادے۔ مگر منریک اس پر راضی نہیں ہوا البتہ کچھ رعایتیں دلانے پر وہ ضرور راضی ہوگیا۔ پہلے وہ ٹھٹہ صوبے کے ناظم شاد خان (شاد خان کو حال ہی میں 15ویں جلوس کے دن 28 اگست 1641ء کو ترقی دی گئی تھی) سے ملا اور آصف خان کے اجازت نامے اور خط دکھائے۔ شاد خان نے ان کاغذات کو 3 بار سر پر رکھا اور 3 بار چوما۔ منریک نے جہاز میں پڑے ہوئے سامان پر رعایت دینے کی بات کی جس پر شاد خان نے فوری کسٹم کے عملے کو بلایا اور رعایت کرنے کی ہدایات دیں۔ اس کے بعد منریک نے شہر میں رہائش کے لیے جگہ کرائے پر حاصل کی۔

ان کاموں سے فارغ ہوکر وہ کشتی کے ذریعے ’لاڑی بندر‘ روانہ ہوا جو ٹھٹہ سے 2 دن کے فاصلے (40 میل) پر، مغرب میں تھا۔ منریک لکھتا نہیں ہے مگر ان زمانوں میں لاڑی بندر اور ننگر ٹھٹہ کے بیچ میں ایک بہت بڑی کارواں سرائے تھی جہاں آتے جاتے بیوپاری اور مسافر یہاں رات کو رہتے تھے کیونکہ ٹھٹہ شہر میں دریائے سندھ پر چھوٹے جہازوں اور کشتیوں کی بندرگاہ تھی۔ بڑی بیوپاری کشتیوں کے لیے اکثر کشتیاں سمندر سے یا گھارو والے انتہائی مغربی بہاؤ سے لاڑی بندر پہنچتی تھیں مگر چونکہ اشیا کی فروخت اور خریداری کے لیے ٹھٹہ آنا پڑتا تھا تو لاڑی بندر اور ٹھٹہ میں ایک نہر کے ذریعے کشتیاں آتی جاتی تھیں اور خشکی کے راستے آنے جانے والے قافلوں کے لیے بھی یہ کارواں سرائے تھی جس کا ذکر کئی یورپین اور مقامی لکھاریوں نے کیا ہے۔

رات منریک نے ضرور اس کارواں سرائے میں ہی گزاری ہوگی۔ دوسرے دن شام کو وہ لاڑی پہنچا اور وہاں فادر جارج (Father Jorge de la Natividad) سے ملا جو وہاں پرتگیز آگسٹین مشینری کا انچارج تھا۔ ان دونوں نے لاڑی بندر میں جو گرجا اور رہائش کو نقصان پہنچا تھا اُس پر تفصیل سے بات چیت کی اور 2 دنوں کے بعد یہ دونوں ٹھٹہ واپس آئے اور شاد خان سے ملے، صلاح مشورہ کیا اور تعمیر کا سامان لےکر لاڑی بندر بھیجا گیا اور تعمیراتی کام شروع ہوا۔ موسموں کا جو احوال منریک نے تحریر کیا ہے اس کے مطابق اکتوبر اور نومبر کے مہینے میں وہ اسی تعمیراتی کام میں ٹھٹہ اور لاڑی بندر میں مصروف رہا ہوگا۔

کبھی کبھی تحریریں اپنے لکھاری کے مخالف کھڑی ہوجاتی ہیں۔ منریک کی تحریر بھی شدید غصے میں تھی جب میں نے اس سے ’شاہ جہاں نامہ‘ میں لکھی اس تحریر کے متعلق پوچھا جس میں مصنف مُلا محمد صالح کمبوہ لکھتے ہیں کہ ’برسات ختم ہونے کے بعد سیروشکار کی غرض سے شاہ جہاں تاریخ 15 شعبان 1051ھ (19 نومبر) کو کانو واہن شکار گاہ کی طرف روانہ ہوئے لیکن تیسرے ہی روز شاہی خیمے میں اطلاع پہنچی کہ 17 شعبان کی شام یمین الدولہ آصف خان انتقال کرگئے اور یہ دردناک خبر سن کر بادشاہ اس دکھ میں کچھ دیر کے لیے ہوش و حواس کھو بیٹھے‘۔

اس تاریخ کو منریک کہاں تھا؟ منریک کی تحریر کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ مگر ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس برس یعنی 1641ء کی سردیوں میں پنجاب اور سندھ میں اچھی بارشیں ہوئی تھیں۔ اگر منریک اپنی تحریر میں تاریخوں اور مہینوں کو تحریر کرتا جاتا تو ان لمحوں میں نہ تاریخ کے صفحات پریشان ہوتے اور نہ ہم پریشان ہوتے۔ کیونکہ آصف خان کا اس جہان سے چلا جانا، منریک کے لیے بہت بڑا نقصان تھا بلکہ ایک حوالے سے لاہور کے دروازے اس کے لیے بند ہوگئے تھے۔

منریک لکھتا ہے کہ ’لاڑی بندر میں کام مکمل ہوا تو میں نے واپس لاہور جانے کے لیے سوچا مگر واپسی کے لیے دریائی سفر مجھے مشکل اور طویل لگا۔ اس لیے میں نے خشکی کے راستے جانے کا فیصلہ کیا اس لیے 2 اونٹ بھی کرائے پر حاصل کیے۔ چونکہ جاڑے کے دن تھے مگر بارش کی وجہ سے راستے خراب ہوگئے (یہ شاید جاڑوں میں بڑی بارش کا ذکر کرتا ہے جو کسی کسی برس اچھی مقدار میں پڑ جاتی ہیں) اس لیے مجھے ایک ماہ تک ٹھٹہ میں انتطار کرنا پڑا۔ میرے پاس کرنے کے لیے کوئی اور کام نہیں تھا اس لیے میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس بڑے اور مصروف زندگی رکھنے والے شہر کو دیکھا جائے‘۔

منریک پہلے تو ٹھٹہ کی ترقی اور بیوپار کے متعلق بتاتا ہے کہ یہاں کی زمین زرخیز ہے۔ خوراک بڑی مقدار میں اُگائی جاتی ہے جیسے چاول اور گندم اور وہ کپاس کی فصل کو بڑی اراضی میں بویا ہوا دیکھتا ہے۔ وہ 2 ہزار سے زیادہ کھڈیوں پر مختلف رنگوں کے کپڑوں کے بُننے کا ذکر کرتا ہے اور یہ بھی لکھتا ہے کہ اس کپڑے کی پُرتگال تک مارکیٹ ہے۔

وہ لکھتا ہے کہ ’یہاں کپڑے کی ایک قسم Taffeta بُنی جاتی ہے جو نہایت نفیس اور ملائم ہوتی ہے ایک اور قسم Tafecirear بھی جو نہایت باریک اور ریشمی کپڑے کی بنتی ہے۔ مویشی زیادہ ہونے کی وجہ سے یہاں چمڑے کی صنعت اپنے عروج پر ہے یہاں تک کہ یہاں سے چمڑا دوسرے ممالک میں بھی بھیجا جاتا ہے۔ یہاں چمڑے پر انتہائی شاندار کام بھی ہوتا ہے۔ چمڑے سے بنے میزوں کے کور، بچھانے اور دیواروں پر لٹکانے کے لیے جو شیٹیں بنتی ہیں جن پر رنگین ریشمی مضبوط دھاگوں کا زبردست کام کیا ہوتا ہے اور ان شیٹوں کے کونوں پر جھالریں بھی بنی ہوتی ہیں اور بھی بہت ساری اشیا چمڑے سے بنائی جاتی ہیں۔

پرتگیز ان کو Sinde Lather کے نام سے بُلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں جو کپاس سے بھرے نرم گدے بنائے جاتے ہیں انہیں ہم Sinde mattresses کہہ کر بلاتے ہیں۔ ان سب حقائق کی وجہ سے ٹھٹہ جو باہر کے لوگوں کی آبادی سے بھرا پڑا ہے اور اس کی بندرگاہ (لاڑی) پر ہر قسم کے سامان سے لدے ہوئے بیوپاری جہازوں کی قطاریں ہیں جو اندرون ملک سے بھی آتے ہیں اور دور دراز ممالک سے بھی، یہاں پیسوں کی ریل پیل ہے۔’

اس مختصر سی تحریر کے بعد وہ ان مُخنثوں کا بڑی نفرت سے اظہار کرتا ہے جو عورتوں کے کپڑے پہنے اُسے ٹھٹہ کی گلیوں میں نظر آئے تھے۔ اس کے بعد شہر کے قرب و جوار میں لگنے والے میلوں میں وہ عورتوں کی شرکت کی مخالفت کرتا ہے اور انتہائی نازیبا جملے تحریر کرتا ہے۔ مطلب کہ منریک نے ٹھٹہ میں وہ دیکھا جو اس کی آنکھیں دیکھنا چاہتی تھیں جبکہ دیکھنے کے لیے ٹھٹہ میں اور بھی بہت کچھ تھا۔ وہ عجیب طبیعت کا چڑچڑا انسان تھا جو اسے اچھا لگتا وہ درست جو اسے اچھا نہیں لگا وہ غلط۔

وہ یقیناً یہاں کی ثقافتی روایات سی بے بہرہ تھا ورنہ وہ ایسا کبھی تحریر نہ کرتا۔ یہاں تو ایسا ہے کہ مخنث کو احترام سے دیکھا جاتا ہے اور جب بچہ جنم لیتا ہے تو جب تک مخنثوں (جس کو مقامی زبان میں کھدڑا فقیر کہا جاتا ہے) کی ٹولی گھر پر نہ آئے اور پیدا ہونے والے بچے کے گھر کے آنگن میں گانا بجانا نہ کریں تب تک بچے کے آنے کی خوشی کو مکمل تصور نہیں کیا جاتا۔ بچے کے گھر والے ان فقیروں کے آنے سے خوش ہوکر اُن سے دعائیں لیتے ہیں۔اور بچے کی خوشی میں گانے بجانے کے بعد مقرر رقم (جس کو لاگ کہا جاتا ہے) وہ دیتے ہیں اور ساتھ میں کپڑے بھی تحفے میں دیتے ہیں۔

یہ سب منریک کے لیے نیا اور خراب تھا۔ مگر مقامی لوگ ان ساری رسومات کا احترام کرتے تھے اور ابھی تک یہ رسومات چلی آرہی ہیں۔ مقامی لوگ ان رسومات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں یہ خود منریک بھی محسوس کرتا ہے اور لکھتا ہے کہ ’مقامی لوگ ان ساری حرکتوں کو اچھا سمجھتے ہیں اور ایسے لوگوں کو وہ دین میں بہت سارے پیسے اور خوراک دیتے ہیں۔ مگر میرے سامنے مخنثوں اور عورتوں کی آزادی کا زیادہ تذکرہ کرنا گناہ ہے‘۔

منریک سے تقریباً 25 برس بعد 1666ء میں ایک فرانسیسی سیاح ’تھیوناٹ‘ سورت اور اجمیر سے ہوتا ہوا مئی میں (کیونکہ اپریل 1666ء میں اس نے اجمیر میں جشن نوروز دیکھا اور پھر اپریل کی آخر یا مئی کے ابتدائی دنوں میں) وہ ٹھٹہ پہنچا کہ یہاں کی گرمی کا ذکر کرتا ہے۔ ننگر ٹھٹہ کی گلیاں اور شہر وہی تھے مگر ان کو دیکھنے اور محسوس کرنے والی آنکھیں منریک سے بالکل برعکس تھیں۔

وہ اپنے طویل اور تفصیلی سفرنامے کے تیسرے حصے میں لکھتا ہے کہ ’ٹھٹہ سندھ کا مشہور اور مصروف ترین شہر ہے جہاں آپ کو ہندوستان کے کئی شہروں سے آئے ہوئے بیوپاری دیکھنے کو ملیں گے جو یہاں بننے والی اشیا خریدنے کے لیے اتنا طویل سفر کر کے یہاں آتے ہیں کیونکہ یہاں کے کاریگر اپنے کام میں لاجواب ہیں۔ سندھو ندی یہاں آکر سمندر میں گرتی ہے اور یہاں کئی جزیرے ہیں جن پر ہریالی ہے اور وہاں اناج اور دوسرے فصلوں کو بویا جاتا ہے۔ یہاں کی زرخیز زمین اور فصلیں اس شہر کو شاہ کار بناتی ہیں۔ مگر یہاں گرمی بہت ہے۔ ٹھٹہ سے 2 دن کے فاصلے پر لاڑی بندر ہے جہاں ہندوستان اور دوسرے ممالک کے بڑے بڑے جہاز کھڑے ملتے ہیں۔ سارے ہندوستان میں سب سے زیادہ بہترین پالکیاں یہاں ٹھٹہ میں بنتی ہیں‘۔

تھیوناٹ پالکی پر تفصیل سے بات کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’جو پیسے والے سیٹھ لوگ ہیں وہ سواری کے لیے نہ تانگہ استعمال کرتے ہیں اور نہ بیل گاڑیاں بلکہ وہ پالکیاں استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک قسم کا آرام دہ صوفہ ہے جس کے 4 چھوٹے پیر ہوتے ہیں تاکہ اُس کو آرام سے زمین پر رکھا جاسکے۔ اس کو اُٹھانے کے لیے 2 لمبے بانس کے لکڑے ہوتے ہیں جو 5 سے 6 انچ موٹے اور 5، 6 فوٹ لمبے ہوتے ہیں جن سے پالکی کو اُٹھایا جاتا ہے۔

اگر پالکی میں کوئی عورت سفر کررہی ہوتی ہے تو اُس پالکی کو سرخ کپڑے سے ڈھانپ دیا جاتا ہے اور اگر بارش کا موسم ہو تو پالکی کو مومی کپڑے سے ڈھانپتے ہیں کہ جو اندر آرامدہ اور نرم گادیلوں پر سفر کررہا ہے اسے کوئی تکلیف نہ ہو۔ پالکی کو بہت خوبصورت طریقوں سے سجایا جاتا ہے تاکہ یہ دور سے پُرکشش اور خوبصورت نظر آئے۔ پالکی کو اُٹھانے کے لیے 4 لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ماہوار تنخواہ پر آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں۔ اگر سفر طویل ہے تو 4 اور آدمی ساتھ چلتے رہتے ہیں کہ پہلے والے تھک جائیں تو وہ اُٹھائیں اس لیے بڑا سفر آرام سے طے ہوجاتا ہے۔ یہاں 2 پہیوں والی گاڑی (جو آگے چل کر تانگہ اور بگھی بنیں) ’Chariot‘ جس صفائی اور خوبصورتی سے ٹھٹہ میں بنتی ہے اُس کا جواب نہیں’۔

تھیوناٹ ساتھ میں بیل گاڑیوں کا بھی بڑی حیرت سے ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’سب سے چھوٹی بیل گاڑیاں جن کو 2 بیل کھینچتے ہیں وہ نزدیک کی آبادیوں کے لیے سامان پہنچانے اور سواری کے کام آتی ہیں۔ اور یہاں دُور دراز شہروں سے بیوپاری سامان لانے کے لیے بہت بڑی اور وزنی بیل گاڑیاں بھی بنتی ہیں جن کو 8 سے 10 بیل کھینچتے ہیں اور بیوپاری سامان لانے اور لے جانے کے لیے محافظوں کی حفاظت میں ان بیل گاڑیوں کے قافلے نکلتے ہیں اور ہر قافلے میں 200 سے زیادہ بیل گاڑیاں شامل ہوتی ہیں‘۔

ٹھٹہ ایک شاندار ماضی رکھنے والا شہر رہا ہے۔ جس کی حیرت انگیز حقائق سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ یہ شاندار دن اب وقت نے ٹھٹہ کی بازاروں سے چھین لیے ہیں۔ بہرحال اس زوال کے درد کو جاننے کے لیے ہم کبھی ضرور بات کریں گے۔ فی الوقت منریک نے پورے ایک ماہ میں ٹھٹہ میں خوب مٹر گشتی کی ہے اب اسے واپس لوٹنا ہے کیونکہ سردیوں میں پڑی بارشوں کا پانی خشک ہوچکا ہے اور دن ابھی بھی ٹھنڈے ہیں اس لیے یہ وقت زمینی سفر کے لیے موزوں ہے۔

منریک کا قافلہ ٹھٹہ سے نکلا اور جیسلمیر سے ہوتا ہوا وہ جنوری کی ابتدا میں ملتان پہنچا جہاں اُسے نواب آصف خان کے موت کی خبر ملی اور یہ منریک کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں تھی، وہ اپنی تحریر میں آصف خان کی وفات پر نہایت رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور ساتھ میں ملتان سے لاہور جانے کا سفر بھی ملتوی کرتا ہے اور وہاں سے قندھار اور پرشیا سے ہوتا ہوا 1643ء روم پہنچتا ہے اور وہاں اپنے مذہبی کاموں اور اپنا یہ سفرنامہ لکھنے میں مصروف رہتا ہے۔

22 برسوں کے بعد وہ انگلینڈ کے لیے نکلتا ہے جہاں اس کی خوفناک موت وہاں اس کا انتظار کررہی ہے۔ یہ وہ شب و روز تھے جب مذہبی حالات کی وجہ سے لندن شہر اتنا محفوظ نہیں تھا۔ 1669ء میں، منریک کے ایک پرتگیز ملازم ہی نے اسے قتل کرکے اس کی لاش تھیمس ندی میں پھینک دی۔ اس طرح فرے منریک کی زندگی کا سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔

اگر دیکھا جائے تو یہ سفر ہم سب کے لیے ایک یادگار سفر ثابت ہونا چاہیے کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب بغیر دھواں اُڑائے اور بغیر شور کے ہزاروں کشتیاں دریاؤں میں سفر کرتیں اپنی اپنی منزلوں کو پہنچتی تھیں۔ بیوپار ہوتے، شہر آباد تھے۔ مگر پھر سرمایہ داری نے ترقی کی۔ جلدی نے ہمیں ایسے شہد چٹائی کہ ہم اس کا ذائقہ چکھنے اور محسوس کرنے کے لیے ہونٹوں پر زبان پھیرنے میں مصروف رہے۔ جب ذائقہ ختم ہوا تو پتا چلا کہ 60، 70 برس میں ہمیں جو فطرت نے دیا تھا ہم سب نے اس وقتی ذائقے کی خاطر برباد کردیا۔

ڈیم بنے دریائی سفر ختم ہوئے۔ اب یہ ہے کہ گلیشیئر بھی اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں اور سمندر زرخیز زمینوں پر دوڑتا چلا آرہا ہے۔ 30 سے 50 برسوں بعد جب وقت سے پہلے کی ہماری ترقی ہمیں برباد کرکے رکھ دے گی تب الفا سینٹوری پر جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا مگر وہاں سرمایہ دار ہی جاسکے گا اور ہم فقط ترقی کا نام لے کر اپنا آنگن فطرت کے انتقام کے حوالے کرچکے ہوں گے!

حوالہ جات

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔