نقطہ نظر

بامیان، جو کبھی بلند و بالا مجسموں کا گھر ہوا کرتا تھا

آج وہ مقامات خالی ہیں جہاں کبھی بدھ مت کی عظیم مورتیاں ہوا کرتی تھیں۔

وہ لوگ جو اپنی تاریخ کو نظرانداز کرتے ہیں وہ اسے بھلا بھی دیتے ہیں۔ وہ لوگ جو اپنی تاریخ کو مسخ کرتے ہیں وہ خود بھی بھلا دیے جانے کے مستحق ہوتے ہیں۔

تاریخ میں ایسے کئی مواقع آئے کہ جب تہذیبیں تباہ ہوئیں، خاص طور پر 330 قبلِ مسیح میں جب سکندراعظم نے ایران کے شہر تختِ جمشید کو تباہ کیا، تیسری صدی عیسوی میں اسکندریہ کی عظیم لائبریری کی تباہی، 1860ء میں بیجنگ کے باہر واقع پرانے سمر پیلس میں چینی خزانوں کی لوٹ مار، اور حال میں 2003ء میں عراق پر امریکی قیادت میں حملے کے دوران عراقی میوزیم کی بے دریغ لوٹ مار جس کے دوران 5 ہزار سال قدیم مجسموں سمیت ایک لاکھ 70 ہزار اشیا لوٹ لی گئی تھیں۔

1960ء کی دہائی میں اسوان ڈیم کی تعمیر کے بعد دریائے نیل کی پانی کی سطح میں اضافہ ہوگیا تھا جس سے 1244 قبلِ مسیح میں ابو سمبل میں فرعون رمسیس کی جانب سے دریا کے کنارے تعمیر کردہ مندر کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ مندر کو توڑا گیا جس کے بعد اسے ایک بلند مقام پر دوبارہ جوڑا گیا جہاں ہر سال 22 اکتوبر اور 22 فروری کو سورج کی شعاعیں اس کے اندرونی حصے میں داخل ہوسکتی ہیں جیسا کہ صدیوں قبل ہونے والی تعمیر میں ہوتا تھا۔ اس طرح کی تعمیر نو میں صرف منصوبہ بندی اور تفصیلی انجینیئرنگ کے لیے یونیسکو اور مصری ماہرین کو تقریباً 5 سال کا عرصہ لگا۔

2001ء میں افغان طالبان کو بامیان میں بدھا کے عظیم مجسموں کو تباہ کرنے میں 5 دنوں سے بھی کم وقت لگا۔ طالبان نے بدھا کے مجسموں کی توڑ پھوڑ سے زیادہ بین الاقوامی برادری میں اپنی ساکھ کو تباہ کیا۔ آج وہ مقامات خالی ہیں جہاں کبھی بدھا کے مجسمے ہوا کرتے تھے۔

خوش قسمتی سے 19ویں صدی کے اختتام پر برطانوی سیاحوں کی طرف سے کھینچی گئی تصاویر ہمیں یہ یاددہانی کرواتی ہیں کہ بامیان شہر اپنی بھرپور شان و شوکت میں کیسا لگتا تھا۔

15 اکتوبر 1878ء کو برطانوی آرٹسٹ ولیم سمپسن لندن سے افغانستان کے لیے روانہ ہوا۔ اسے دی السٹریٹڈ لندن نیوز نے افغان جنگ کے خاکے بنانے کے لیے بھیجا تھا۔ وہ لاہور، پشاور اور درہ خیبر سے گزرتے ہوئے افغانستان پہنچا۔

راستے میں اس نے بدھ مت کے اسٹوپا اور دیگر مقامات دیکھے جس کے بعد اس نے بامیان میں بدھا کے مجسمے دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس نے اس حوالے سے چینی سیاح فاہیان (400 قبلِ مسیح) اور ہیون سانگ (632 قبلِ مسیح) کی تحریروں میں پڑھا تھا۔ اس دورے پر وہ ان مجسموں کو نہیں دیکھ پایا اور جب وہ 86ء-1884ء میں افغان باؤنڈری کمیشن کے ساتھ واپس آیا تب بھی وہ بامیان میں بدھا کے مجسمے دیکھنے سے محروم رہا۔

تاہم ولیم سمپسن خود سے بہتر لوگوں سے مدد لینے میں جھجھکتا نہیں تھا۔ اس نے برطانوی افسر، کیپٹن پیلہم جیمز میٹ لینڈ (جو بعد میں عدن میں 1901ء سے 1904ء تک برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ رہا) کی جانب سے بامیان کے مجسموں کے بنائے ہوئے خاکوں تک رسائی حاصل کی۔

جیمز میٹ لینڈ کے خاکوں سے اخذ کردہ ولیم سمپسن کے خاکوں کو (جیمز میٹ لینڈ کے بنائے ہوئے خاکوں کا اعتراف کرتے ہوئے) 6 اور 13 نومبر 1886ء کے السٹریٹڈ لندن نیوز کے شماروں میں شائع کیا گیا۔

ولیم سمپسن نے خاکوں کے ساتھ اپنے تفصیلی نوٹ میں لکھا کہ ’ہندوستان کے ماہرینِ آثار قدیمہ کو طویل عرصے سے بامیان میں موجود بدھا کے عظیم مجسموں کے حوالے سے معلوم ہے لیکن انہوں نے اس کے درست خاکے نہیں بنائے اور نہ ہی قابلِ اعتبار پیمائش کی۔ اب ان خاکوں کو ایسے بنایا اور ان مجسموں کو ایسے ناپا گیا ہے کہ ان پر بھروسہ کیا جاسکے۔ یہ افغان باؤنڈری کمیشن کے کئی اہم نتائج میں سے ایک ہے۔ ہم کیپٹن میٹ لینڈ کے بنائے گئے خاکوں اور طاقوں اور غاروں کی دیواروں پر پینٹنگز کی باقیات کے بھی مقروض ہیں۔

’بامیان کابل اور بلخ کے درمیان سڑک پر واقع ہے، جہاں یہ پاروپامیسس پہاڑی سلسلے کو عبور کرتی ہے۔ یہ سطح سمندر سے تقریباً 8 ہزار 500 فٹ بلندی پر واقع ہے۔ یہاں پڈنگ پتھر پائے جاتے ہیں جس کی وادی میں ایک اونچی چٹان موجود ہے۔ ابتدائی دور میں، غالباً مسیحی دور کی ابتدائی صدیوں کے دوران ان چٹانوں میں بدھسٹ راہبوں نے غاروں بنائے ہوں گے۔

’بامیان میں غاروں کی بڑی تعداد میلوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ کئی غار ایسے ہیں جو شمال کی جانب سڑک کے ساتھ ہیبک تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وادی جلال آباد میں موجود آثار کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ غار صرف وہار یا خانقاہیں نہیں ہوں گی بلکہ یہ باقاعدہ بنی عمارتیں ہوں گی۔

’جب چینی زائر ہیون سانگ نے 630 قبل مسیح میں بامیان کا دورہ کیا تو وہ بتاتا ہے کہ یہاں بدھ مت کے ایک ہزار راہب رہتے تھے اور ان کے لیے یہاں 10 عمارتیں مختص تھیں۔ وہ بامیان کو ایک مملکت کے طور پر بیان کرتا ہے لیکن ہم اسے صرف اس کے غاروں اور عظیم مجسموں کی وجہ سے جانتے ہیں، جو بدھ مت کی باقیات ہیں۔

’بامیان میں 5 مجسمے ہیں، ان میں سے 3 طاقوں میں ہیں۔ یہ مجسمے طاق کے اندر چٹان میں بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح سب سے بڑا مجسمہ بھی تیار کیا گیا ہے۔ اس کے سائز کا اندازہ مسافروں نے مختلف انداز سے لگایا ہے، کچھ نے اسے 100 فٹ اور بعض نے اسے 150 فٹ تک بلند قرار دیا ہے۔

’کیپٹن ٹیلبوٹ نے تھیوڈولائٹ کے استعمال سے پتا چلایا کہ پچھلے تمام اندازے درست نہیں تھے۔ یہ مجسمہ 173 فٹ بلند ہے۔ یہ لندن مانیومنٹ سے 29 فٹ چھوٹا ہے جس کی درست پیمائش 202 فٹ ہے۔ ٹریفلگر اسکوائر میں نیلسن کالم 176 فٹ بلند ہے اور یوں بامیان کا یہ مجسمہ تقریبا اس کے برابر ہی ہے‘۔

’اگر دنیا کے تمام عظیم مجسموں کو ایک جگہ جمع کیا جاسکے، اگر دریائے نیل کے کنارے سے میمنن کے مجسمے آسکیں (جوکہ 51 فٹ بلند ہیں اور یہ کھڑے ہوتے تو اس سے بھی زیادہ بلند ہوتے)، اِپسمبول (ابو سمبل) میں مندر کے سامنے واقع 4 عظیم محافظوں کے مجسمے، جاپان کا کانسی کا ڈائی بوٹز، ایتھین کا مجسمہ جسے فیڈیاس نے پارتھینن کے لیے بنایا تھا، جس کی اونچائی 39 فٹ تھی، یا پھر رہوڈز کے عظیم مجسمے کو ایک مقام پر جمع کیا جائے تو ان سب کے درمیان بامیان کا عظیم مجسمہ ایک بڑے دیوہیکل مجسمے کی طرح کھڑا ہوگا جس کی بلندی کا کوئی ثانی نہیں ہوگا‘۔

ولیم سمپسن نے بعض مورخین کے اس تصور کو مسترد کردیا ہے کہ بامیان کے مجسمے بدھ مت سے پہلے کے ہیں۔ اس کے نزدیک، بالوں کا انداز، لمبے کان اور مجسمے کے لباس میں تہیں واضح طور پر اسے بدھا کے طور پر بیان کرتے ہے۔ وہ مزید کہتا ہے کہ ’مجسمے کے پیروں میں داخلی راستے ہیں جو سیڑھیوں اور گیلریوں سے جڑے ہوئے ہیں، تاکہ چوٹی تک پہنچا جاسکے‘۔

ماضی میں کبھی سب سے بڑے مجسمے کو جواہرات سے آراستہ کیا گیا تھا اور اس پر رنگ کیا گیا تھا۔ چینی زائرین نے لکھا ہے کہ ’اس کی سنہری رنگت ہر طرف چمکتی ہے اور اس کے قیمتی زیورات کی چمک سے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں‘۔

سمپسن نے مقامی روایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’جب تیمور کے سپاہی ہندوستان پر حملے کے لیے جاتے ہوئے یہاں سے گزرے تو انہوں نے بتوں پر تیر برسائے اور نادر شاہ کے دستوں نے بھی ان پر توپ کے گولے داغے‘۔ وہ پیش گوئی کے انداز میں کہتا ہے کہ ’(مسلمان) بت پرستی کی ایسی چیزوں کو ضرور تباہ کردیں گے‘۔

طالبان نے 2001ء میں ایسا ہی کیا۔ اس لیے آج کے دور کے زائرین کو خالی طاقوں میں پیش کردہ ہولوگرام سے ہی مطمئن ہوجانا چاہیے۔

سوچنے کی بات ہے کہ بدھا نے ان لوگوں کے لیے کیا کہا ہوگا جنہوں نے ان کے مجسموں کو تباہ کیا؟ پھر ہمارے بارے میں ان کا کیا خیال ہوگا جنہوں نے اپنے ماضی کو بےدردی سے بھلا دیا ہے؟ شاید وہ یہی کہتے ہوں گے کہ ’میں اس تقدیر پر یقین نہیں رکھتا جو لوگوں کے کچھ کرنے سے بنتی ہے۔ لیکن میں اس تقدیر پر یقین رکھتا ہوں جو کچھ نہ کرنے کی نتیجے میں بنتی ہے‘۔


یہ مضمون 9 اپریل 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

ایف ایس اعجازالدین

ایف ایس اعجاز الدین ملکی و بین الاقوامی سیاست پر بہت عمدہ لکھتے ہیں،آپ عرصہ دراز سے ڈان سے وابستہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔