پاکستان

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج

یہ قانون سازی ترمیم کے بغیر کی گئی ہے اور بظاہر عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے لہٰذا اس سے کالعدم قرار دیا جائے، درخواست

وفاق حکومت کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق منظورہ کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے رکن وکیل سعید آفتاب نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور عدالت سے استدعا کی کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر مجوزہ ایکٹ کو کالعدم قرار دیا جائے اور کہا کہ یہ قانون ترمیم کے بغیر منظور کیا گیا ہے اور ترمیم کے لیے پارلیمان میں دو تہائی کی اکثریت درکار ہوتی ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون سازی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے کے لیے کی گئی ہے اور سینئرترین ججوں سے مشاورت کے ساتھ اکثریت کی بنیاد پر رکھا گیا ہے جو بظاہر عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے اور اختیارات سے تجاوز کا اقدام ہے۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ قانونی برادری کا مشترکہ مطالبہ ہے کہ 184 کے تحت اپیل کا حق دیا جائے، یہ بنیادی مطالبہ صرف آرٹیکل184کے تحت فیصلوں کے خلاف حق اپیل تھا، اپیل کا حق چیف جسٹس کے اختیارات میں کمی لائے بغیر دیا جاسکتا تھا۔

اس ضمن میں کہا گیا ہے کہ قانونی اصلاحاتی آرڈیننس 1972 کے تحت ہائی کورٹ کی طرز پر قانون میں انٹرا کورٹ اپیل کا حق دیا جا سکتا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ مقدمات کے لیے بینچوں کی تشکیل سپریم کورٹ کا اختیار ہے، جس کا فیصلہ معزز جج صاحبان کو فل کورٹ اجلاس یا انتظامی کمیٹیوں کے ذریعے مقدمے کے حساب سے خود کرنا ہے۔

وکیل نے کہا کہ اس طرح کے قواعد پارلیمان کے ذریعے بنانا آئین کے آرٹیکل 191 کی روح کے منافی ہے لہٰذا کالعدم قرار دیاجا سکتا ہے۔

خیال رہے کہ 28 مارچ کو وفاقی کابینہ کی جانب سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی منظوری دی گئی تھی، جس کے بعد 29 مارچ کو قومی اسمبلی سے متعدد ترامیم کے بعد منظور کرلیا گیا تھا۔

قومی اسمبلی سے بل کی منظوری کے وقت حزب اختلاف اور حکومتی اراکین نے اس بل کی بھرپور حمایت کی تھی تاہم چند آزاد اراکین نے اسے عدلیہ پر قدغن قرار دیا تھا۔

بعد ازاں 30 مارچ کو سینیٹ سے بھی اکثریت رائے سے منظور ہوا تھا۔

سینیٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے حق میں 60 اور مخالفت میں 19 ووٹ آئے تھے جبکہ بل کی شق وار منظوری کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت اپوزیشن ارکان نے بل کی کاپیاں پھاڑی اور احتجاج کیا اور شور شرابا کیا تھا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد 30 مارچ کو باقاعدہ توثیق کے لیے صدر مملکت کو ارسال کردیا تھا۔

دوسری جانب صدر مملکت نے 8 اپریل کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہونے والا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 اختیارات سے باہر قرار دیتے ہوئے نظرثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ کو بھیج دیا تھا۔

ایوان صدر سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر مملکت عارف علوی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نظر ثانی کے لیے پارلیمنٹ کو واپس بھجوادیا اور کہا ہے کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے۔

صدر مملکت عارف علوی نے کہا تھا کہ مذکورہ بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے لہٰذا بل کی درستی کے بارے میں جانچ پڑتال کے لیے دوبارہ غور کرنا چاہیے، اس لیے واپس کرنا مناسب ہے۔

حکومت نے صدرمملکت کی جانب سے واپس بھیجے جانے کے بعد گزشتہ روز (10 اپریل) کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دوبارہ منظور کرلیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد لانے والوں پر توہین عدالت کیلئے درخواست دیں گے، فواد چوہدری

مقبوضہ کشمیر میں جی 20 اجلاس بلانے کی بھارتی تجویز پر پاکستان کا اظہارِ مذمت

ہائیکورٹ نے وزیراعظم آزاد کشمیر کو نااہل قرار دے دیا