پاکستان

ملک کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کی تاریخ میں 15 اپریل تک توسیع

مردم شماری کا 97 فیصد سے زائد کام مکمل کرلیا گیا، چند بڑے شہر اور بلوچستان کے کچھ علاقوں کو ملا کر صرف 3 فیصد کام باقی ہے، ترجمان ادارہ شماریات

پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت 97 فیصد سے زائد کام مکمل کر لیا گیا جب کہ ملک کے مختلف علاقوں میں 15 اپریل تک توسیع دی گئی ہے۔

ترجمان ادارہ شماریات محمد سرور گوندل کی طرف سے جاری بیان کے مطابق چند بڑے شہروں اور صوبہ بلوچستان کے کچھ علاقوں کو ملا کر مردم شماری کا مجموعی طور پر صرف 3 فیصد کام باقی ہے۔

چیف کمشنر شماریات ڈاکٹر نعیم الظفر نےصوبوں کی سفارشات کے پیش نظر اور ہر فرد کے شمار کو یقینی بنانے کے لئے چند بڑے شہروں اور بلوچستان کے کچھ علاقوں کے لیے مردم شماری کے کام میں 15 اپریل تک توسیع کی منظوری دے دی ہے۔

بیان کے مطابق پنجاب میں 99 فیصد، سندھ میں98 فیصد، بلوچستان میں 82 فیصد، آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں 100 فیصداور اسلام آباد میں 90 فیصد کام مکمل کرلیا گیا ہے۔

ملک بھر کے 156 میں سے 131 ضلعوں میں مردم شماری کا کام مکمل کر لیا گیا ہے، مجموعی طور پر پاکستان میں 39.65 ملین گھرانوں میں سے 38.54 ملین گھرانوں کے افراد کا ڈیٹا حاصل کرلیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ادارہ شماریات نے مردم شماری کی تاریخ میں 10 اپریل تک توسیع کا نوٹی فکیشن جاری کیا تھا، ترجمان ادارہ شماریات نے کہا تھا کہ ملک بھر میں مردم شماری کا کام 92 فیصد مکمل کر لیا گیا ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 95 فیصد مردم شماری مکمل کرلی گئی۔

خیال رہے کہ ملک بھر میں یکم مارچ سے ڈیجیٹل مردم شماری جاری ہے جب کہ ادارہ شماریات کے مطابق مردم شماری کے لیے ایک لاکھ 21 ہزار شمار کنندگان میدان میں ہیں۔

ڈیجیٹل مردم شماری اہم پالیسی فیصلوں کے لیے بھی ڈیٹا فراہم کرے گی، جو کہ فی الوقت 2017 کی مردم شماری کی بنیاد پر ہوتے ہیں جس کے مطابق پاکستان کی آبادی 20 کروڑ 70 لاکھ ہے۔

توقع کی جارہی ہے کہ تازہ مردم شماری ان تنازعات سے بھی محفوظ رہے گی جن سے 2021 میں ہونے والی مردم شماری گھری رہی، جوکہ روایتی طریقوں سےکی گئی تھی اور غلطیوں اور اخراج کی شکایات کے سبب اس کے نتائج کا اعلان کبھی نہ کیا جاسکا۔

گزشتہ ہفتے ادارہ شماریات نے کہا تھا کہ ڈیجیٹل مردم شماری ایک بہت بڑی کامیابی اور قوم کے لیے فخر کا باعث ہے، اب تک 4 کروڑ گھرانوں کی گنتی اور جیو ٹیگنگ کی جا چکی ہے اور مردم شماری کا 92 فیصد کام کامیابی سے مکمل ہو چکا، روزانہ تقریباً ایک کروڑ لوگوں کا ڈیٹا بغیر کسی مسئلے یا تکنیکی خرابیوں کے اکھٹا کیا جاتا ہے، یہ پاکستان کے لیے بہت بڑی جیت ہے۔

بیان کے مطابق ادارہ شماریات کی جانب سے صوبائی اور ضلعی حکومتوں کو فراہم کردہ ریئل ٹائم ڈیٹا پروگریس مانیٹرنگ ڈیش بورڈز مکمل طور پر شفاف عمل اور فیلڈ آپریشنز کی مسلسل نگرانی کی سہولت فراہم کرتا ہے، یہ ڈیش بورڈ صوبائی حکومتوں کو روزانہ کی بنیاد پر کسی بھی خلل یا بےضابطگی کی نشاندہی کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔

ادارہ شماریات کی جانب سے جاری بیان میں واضح کیا گیا کہ ’مردم شماری کے لیے اپنایا گیا موجودہ طریقہ کار مجموعی شمولیت کو یقینی بناتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک فرد جو کسی مقام پر 6 ماہ سے رہ رہا ہے یا وہاں مزید 6 ماہ رہنے کا ارادہ رکھتا ہے اور وہاں کے وسائل استعمال کرتا ہے تو اسے اس کی قومیت، جغرافیہ، نسل، شناخت، وابستگی، سیاست، ذات یا عقیدہ سے قطع نظر وہیں شمار کیا جائے گا‘۔

ادارہ شماریات نے صوبائی اور ضلعی حکومتوں کو ایک ہیلپ لائن 080057574 اور ایس ایم ایس سروس 9727 کی سہولت بھی فراہم کی ہے جس پر لوگ اپنے سوالات کے لیے رابطہ کرسکتے ہیں یا مردم شماری میں کسی علاقے کی عدم شمولیت کی اطلاع بھی دے سکتے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’حال ہی میں وزیر اعظم کی ہدایت پر مردم شماری کے 495 سپورٹ سینٹرز اب تمام رہ ہونے والے علاقوں کے لیے پوائنٹس آف ریفرل کے طور پر بھی کام کر رہے ہیں‘۔

حالیہ مردم شماری پر اعتراضات بنیادی طور پر وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کی جانب سے ظاہر کیے جا رہے ہیں، گزشتہ روز ایم کیو ایم-پاکستان نے ڈیجیٹل مردم شماری پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکام کو متنبہ کیا کہ اگر تحفظات دور نہ کیے گئے تو شارع فیصل پر دھرنا دیا جائے گا۔

ایم کیو ایم نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ مردم شماری کے دوران کراچی کے 80 لاکھ افراد شمار ہونے سے رہ جائیں گے جب کہ اس سے ایک روز قبل ایم کیو ایم پاکستان کے ایک سینئر رہنما نے مردم شماری کے حوالے سے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں مرکز میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت سے علیحدگی کا عندیہ بھی دیا تھا۔

خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ مردم شماری ہماری سرخ لکیر ہے اور اس سرخ لکیر کو عبور کیا جا رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر سمجھتے ہیں کہ اگر مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو ان کی جماعت کو اپنا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

دلائی لامہ نے بچے سے کہے گئے ’نامناسب‘ الفاظ پر معافی مانگ لی

ٹیم میں بابر اور رضوان جیسے کھلاڑی ہوں تو میچ جیتنا آسان ہوجاتا ہے، زمان خان

8 سال قبل جس سے میری بات پکی ہوئی وہ دن رات گالیاں دیتا تھا، عائشہ عمر