نئے ممکنہ فوجی آپریشن پر سیاسی جماعتوں کا تحفظات کا اظہار
دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ممکنہ فوجی آپریشن کے خلاف حکومت اور اپوزیشن دونوں صفوں میں موجود سیاسی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اعلیٰ سول اور فوجی قیادت نے دہشت گردی کے خطرات کو ناکام بنانے کے عزم کا اعادہ کیا اور مبینہ طور پر افغانستان سے آنے والے عسکریت پسندوں کو شکست دینے کے لیے 15 روز کے اندر نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) دوبارہ نافذ کرنے کا عزم کیا۔
یہ فیصلے قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے اجلاس میں کیے گئے، حکومت کے مطابق یہ اجلاس جنوری میں پشاور کے پولیس ہیڈ کوارٹر میں عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد بلائے گئے گزشتہ اجلاس کا تسلسل تھا، یاد رہے کہ اس حملے میں 86 افراد شہید ہوئے تھے جن میں زیادہ تر پولیس اہلکار تھے۔
تاہم وفاقی حکومت کے اتحادیوں سمیت سیاسی جماعتوں نے عسکریت پسندوں کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے، ان میں سے زیادہ تر کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی شروع کرنے سے پہلے عسکریت پسندوں کو واپس لانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔
وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) نے کہا کہ حکومت عوام کا اعتماد کھو چکی ہے، چیئرمین این ڈی ایم محسن داوڑ نے کہا کہ ’حکومت اور سیکیورٹی فورسز عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں، لوگ ان پر مزید یقین نہیں کریں گے چاہے وہ عسکریت پسندوں کے خلاف 100 فوجی آپریشن شروع کر دیں‘۔
انہوں نے کہا کہ صرف جڑیں کاٹنا کافی نہیں رہے گا، عسکریت پسندوں کی قیادت کو بھی ختم کیا جانا چاہیے۔
محسن داوڑ نے سوال کیا کہ ابتدائی طور پر متفقہ نیشنل ایکشن پلان میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں تھی لیکن پھر بھی پچھلی حکومت نے مذاکرات شروع کردیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی افغان پالیسی میں مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے، حکومت افغان طالبان کی حمایت کرتی ہے جو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی حمایت کرتے ہیں’۔
ہفتہ (8 اپریل) کو جاری کردہ ایک بیان میں این ڈی ایم نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں نے پشتونوں میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔
این ڈی ایم نے کہا کہ ’نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں دہشت گردی، افغان پالیسی اور پراجیکٹ طالبان کی جڑوں تک پہنچے بغیر فوجی آپریشن شروع کرنے کی بات کی گئی جس کا مطلب 2007 سے 2014 تک کی جارحانہ کارروائیاں دوبارہ شروع کرنا اور دوبارہ اچھے طالبان اور برے طالبان والی پالیسی اپنانا ہے‘۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’پختون پہلے ہی بڑے پیمانے پر اموات، تباہ حالی اور بےگھر ہونے جیسی آزمائشوں کا سامنا کرچکے ہیں اور اب وہ اسے مزید برداشت نہیں کریں گے، نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں ٹی ٹی پی کو خیبر پختونخوا میں داخلے کی اجازت دینے میں پچھلی حکومت کی غلطی کا تذکرہ کیا گیا، یہ ایک ایسی غلطی تھی جس کی وجہ سے عام شہریوں اور سیکورٹی اہلکاروں سمیت سیکڑوں لوگوں کی موت ہوئی‘۔
این ڈی ایم کی جانب سے سوال کیا گیا کہ ’سوال یہ ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں منتخب وزرائے اعظم کو معمولی الزامات پر ٹرائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہاں اتنی بڑی سیکیورٹی خلاف ورزی کے لیے ذمہ داران کو ٹریبونل کے سامنے کیوں نہیں لایا جا سکتا؟
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف کسی بھی آپریشن کو اس وقت تک مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا جب تک کہ عسکریت پسندوں کو واپس لانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا۔
ایمل ولی خان نے کہا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، سابق وزیر اعظم عمران خان، سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان، جنرل (ر) فیض حمید اور خیبرپختونخوا کی سابق کابینہ کے رکن بیرسٹر محمد علی سیف سمیت تمام سہولت کاروں کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے اور ان سے اُن علاقوں کا پتہ لگایا جائے جہاں عسکریت پسندوں کی آبادکاری ہوئی تھی۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف تازہ فوجی کارروائی کے بارے میں کسی بھی فیصلے سے پہلے طالبان کو پاکستان واپس لانے والے سہولت کاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔
دوسری جانب جماعت اسلامی نے بھی گزشتہ روز جنوبی وزیرستان کے ضلع میں ممکنہ فوجی آپریشن کے خلاف مظاہرہ بھی کیا۔