دنیا

حوثیوں سے امن مذاکرات کیلئے سعودی اور عمانی وفود کی صنعا آمد

وفود حوثی حکام کے ساتھ مستقل جنگ بندی کے معاہدے اور جنگ میں سعودی فوجی مداخلت کے خاتمے پر بات چیت کریں گے۔

سعودی اور عمانی وفود حوثی حکام کے ساتھ مستقل جنگ بندی کے معاہدے اور ملک میں طویل عرصے سے جاری جنگ میں سعودی عرب کی فوجی مداخلت کے خاتمے پر بات چیت کے لیے یمن کے دارالحکومت صنعا پہنچ چکے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق یہ دورہ عمان کی ثالثی میں سعودی عرب اور یمن کے درمیان ہونے والی مشاورت کی عکاسی کرتا ہے جہاں دوسری جانب اقوام متحدہ کی جانب سے بھی قیام امن کی کوششیں جاری ہیں۔

امن کی ان کوششوں میں اس وقت مزید پیشرفت ہوئی جب روایتی حریفوں سعودی عرب اور ایران تعلقات بحال کرنے پر رضامند ہوئے جس میں چین نے مرکزی کردار ادا کیا۔

حوثی خبر رساں ایجنسی صبا نے رپورٹ کیا کہ ان وفود کے ایلچی حوثی سپریم پولیٹیکل کونسل کے سربراہ مہدی المشاط سے ملاقات کریں گے تاکہ دشمنی کے خاتمے اور یمنی بندرگاہوں پر سعودی زیرقیادت ناکہ بندی ہٹانے پر بات چیت کی جا سکے۔

ذرائع نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ سعودی-حوثی مذاکرات حوثیوں کے زیر کنٹرول بندرگاہوں اور صنعا کے ہوائی اڈے کو مکمل طور پر دوبارہ کھولنے، سرکاری ملازمین کو اجرتوں کی ادائیگی، تعمیر نو کی کوششوں اور غیر ملکی افواج کے ملک سے انخلا کی ٹائم لائن پر مرکوز ہیں۔

یمن کی جنگ کو ایران اور سعودی عرب کے درمیان کئی پراکسی لڑائیوں میں سے ایک کے طور پر دیکھا جاتا ہے، حوثیوں نے 2014 میں سعودی عرب کی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹ کر ایران کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا، ان کا شمالی یمن پر اصل کنٹرول ہے جہاں ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک کرپٹ نظام اور غیر ملکی جارحیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

وہ 2015 سے سعودی عرب کی زیرقیادت فوجی اتحاد کے خلاف برسر پیکار ہیں جس میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اس بحران کے سبب یمن کی 80 فیصد آبادی کا انحصار انسانی امداد پر ہے۔

ایک حوثی اہلکار نے ہفتے کے روز بتایا کہ رہا کیے گئے سعودی قیدی کے بدلے سعودی عرب کی طرف سے رہا کیے گئے 13 قیدی موصول ہو گئے ہیں۔

اس سے پہلے دونوں فریقوں نے قیدیوں کے وسیع پیمانے پر تبادلے پر اتفاق کیا تھا۔

گزشتہ ماہ سوئٹزرلینڈ میں ہونے والے مذاکرات میں اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے شرکت کی تھی، یمنی حکومت اور حوثیوں نے 887 قیدیوں کو رہا کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

سعودی حکومت کے میڈیا آفس نے قیدیوں کے تبادلے اور صنعا کا دورہ کرنے والے وفد کے بارے میں تبصرہ کرنے کے لیے رائٹرز کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔