پاکستان

بھارت سندھ طاس معاہدے میں یک طرفہ ترمیم نہیں کر سکتا، سینیٹ اراکین

مودی حکومت ایسے تنازعات کی تلاش میں رہتی ہے جنہیں وہ زہریلے پروپیگنڈے میں استعمال کرسکیں، شیری رحمٰن

اراکینِ سینیٹ نے کہا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے میں یکطرفہ طور پر ترمیم نہیں کرسکتا، اِس کی جرات نہیں ہے کہ سندھ طاس معاہدے سے پِھر جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کے اقدام پر ردعمل دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ یہ مسئلہ ملک کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے، بھارت کی جانب سے 25 جنوری کو سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے خط پر پاکستان نے ابھی تک مؤثر، ٹھوس اور جرات مندانہ جواب نہیں دیا۔

اجلاس میں بھارت کی جانب سے سندھ طاس کمیشن کے ذریعے بھیجے گئے نوٹس سے متعلق سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم کے توجہ دلاؤ نوٹس پر اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے میں ردوبدل دونوں ممالک پاکستان اور بھارت کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے تصدیق کی کہ پاکستان کو 25 جنوری کو بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کا ایک تشویشناک خط موصول ہوا تھا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ اقدام مودی حکومت نے اپنے ملک کے اندرونی سیاسی معاملات میں فائدہ سمیٹنے کے لیے اٹھایا ہے کیونکہ بھارت میں اگلے سال انتخابات ہونے والے ہیں۔

سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ مودی حکومت ایسے تنازعات کی تلاش میں رہتی ہے جنہیں وہ زہریلے پروپیگنڈے میں استعمال کرسکیں، بھارت میں پچھلے انتخابات کے دوران بھی آبی تنازع زیربحث لایا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت نے پاکستان پر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ یہ خلاف ورزی کیسے کی گئی، ہمیں لگتا ہے کہ ایسا جان بوجھ کر بھارتی عوام کو اشتعال دلانے کے لیے کیا گیا ہے، اس حوالے سے وزیر اعظم کو بریفنگ دی گئی اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت بھی ہوئی جس کے بعد یکم اپریل کو بھارت کو جواب دیا گیا۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ معاہدے کے مطابق پرمننٹ انڈس کمیشن اس حوالے سے کسی بھی قسم کے خدشات کو اٹھانے اور اس پر بات کرنے کے لیے مناسب فورم ہے لہٰذا پاکستان پرمننٹ انڈس کمیشن کے ذریعے اس معاہدے کے حوالے سے کسی بھی مسئلے پر بات چیت پر راضی ہے، پاکستان اس معاملے پر گھبرانے والا نہیں ہے اور اپنے آبی وسائل کے بارے میں حساس ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’سندھ طاس معاہدہ (1960) دونوں ممالک کے درمیان ہر قسم کی کشیدگی کے باوجود محفوظ رہا ہے اور اس نے بھارت اور پاکستان کے درمیان آبی وسائل کی تقسیم میں اہم کردار ادا کیا ہے، پاکستان اس معاہدے کا پابند ہے اور بھارت سے بھی اس کی تعمیل کی توقع رکھتا ہے‘۔

سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ پاکستان کے لیے مختص دریاؤں پر بھارت کی جانب سے بگلیہار، کشن گنگا اور رتلے جیسے متنازع ڈیموں کی تعمیر پر پاکستان بروقت اعتراض اٹھایا تھا، پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے کام جاری ہے، دیامر بھاشا اور مہمند ڈیموں پر بھی کام جاری ہے جبکہ سندھ میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے 16 ڈیم بنائے جائیں گے۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ہم آپس میں لڑنے میں بہت مصروف ہیں، بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی اتحاد ضروری ہے، حالیہ دورہ چین کے دوران ہمیں یہ پیغام دیا گیا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی پارٹی اور ذاتی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر پاکستان اور اس کے عوام کے مفاد کے لیے بات کرنی چاہیے۔

آئینی مقدمات کی سماعت کیلئے علیحدہ عدالت بنانے کی تجویز

سینیٹ میں خطاب کے دوران وزیر مملکت برائے قانون و انصاف شہادت اعوان کی جانب سے عام مقدمات کے لیے سپریم کورٹ کے علاوہ آئینی مقدمات کی سماعت کے لیے علیحدہ عدالت بنانے کی تجویز پیش کی گئی۔

زیر التوا مقدمات کے معاملے پر توجہ دلاؤ نوٹس پر ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ اعلیٰ عدالتوں میں 3 لاکھ 80 ہزار 436 سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔

شہادت اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ میں 51 ہزار 744، لاہور ہائی کورٹ میں ایک لاکھ 79 ہزار 425، سندھ ہائی کورٹ میں 85 ہزار 779، پشاور ہائی کورٹ میں 41 ہزار 911، بلوچستان ہائی کورٹ میں 4 ہزار 471، اسلام آباد ہائی کورٹ میں 17 ہزار 104 جبکہ وفاقی شرعی عدالت میں 103 مقدمات زیر التوا ہیں۔

قومی سلامتی کمیٹی کا انسداد دہشت گردی آپریشنز کا اعلان، انتخابات کے امکانات میں مزید کمی

گھر سے باہر جانے سے قبل سَن اسکرین کا استعمال لازمی کریں

بھارت: بیرونِ ملک نوکریوں کا جھانسہ دے کر لوگوں کو لُوٹنے والا گروہ گرفتار